Wednesday, April 1, 2015

UNDERSTANDING YEMEN CONFLICT


یمن بحران کیا ہے؟

عرب سپرنگ کے نتیجے میں یمن میں مظاہرے شروع ہوئے اور 2011میں یمن کے صدر عبداللہ صالح کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔۔صالح کے اقتدار چھوڑنے کے بعد بظاہر مسئلہ کچھ حل ہوگیا لیکن مستقل حل نہ ہوسکا۔۔معزول صدر عبداللہ صالح چونکہ خود شیعہ مسلمان ہے اور یمن میں زیدی شیعان جو حوثی کہلاتے ہیں کی
کافی اکثریت ہے ۔۔عبداللہ صالح نے ان حوثیوں کی پشت پناہی شروع کردی اور انہیں اقتدار پر قبضے کےلیے اکسایا۔۔حوثی نئے بننے والے صدر
عبدالرب منصورہادی کے ساتھ اپنے علاقے کی خودمختاری کےلیے مذاکرات کرتے رہے لیکن نتیجہ نہ نکل سکا۔۔حوثی باغیوں نے ستمبر2014میں منظم کارروائیاں شروع کردیں اور حکومت کےخلاف محاذ کھول لیا اور یمن پر قبضے کی جنگ شروع ہوگئی ۔۔موجودہ صدر( جو اب ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں) عبدلرب منصور ہادی کی حامی فوج نے تین ماہ تک مزاحمت کی لیکن جنوری 2015میں حوثی باغیوں نے دارلحکومت صنعا پرقبضہ کرلیا اور منصور ہادی کی حکومت عدن اور مکلہ وغیرہ تک محدود ہوگئی ۔۔صنعا پر قبضے کےبعد حوثی باغیوں نے عدن پر قبضے کی کوششیں شروع کردیں ۔جب یہ جنگ مارچ میں عدن تک پہنچی تو ۔صدر منصور ہادی نے ریاض پہنچ کر سعودی عرب سے مدد طلب کی اور اس کو یمن میں حوثی باغیوں کےخلاف کارروائی پر راضی کرلیا۔سعودی عرب نے اس مقصد کےلیے خلیج کی پانچ ریاستوں،اردن،مصر،سوڈان اور موراکو کی حمایت حاصل کی اور پاکستان نے بھی حمایت کا یقین دلایا۔سعودی عرب نے 26مارچ کوثوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کردے جو ابھی تک جاری ہیں۔

سعودی عرب اورمصرکیوں جنگ لڑرہے ہیں؟

سعودی عرب کے لیے یمن کی صورتحال خراب اور حوثی باغیوں کے قبضے سے دوطرح کی پریشانی ہے ۔۔پہلی تو سعودی عرب کی طویل سرحد یمن کے ساتھ ملتی ہے۔۔یمن میں خراب صورتحال کا مطلب واضح ہے کہ خانی جنگی سعودی عرب تک پہنچ سکتی ہے دوسری بڑی پریشانی جس میں مصر بھی سعودی عرب کا شریک ہے کہ ۔۔خلیج عدن میں باب المندب کامقام ہے یہ تنگ سمندر ہے جو خلیج عدن کو ریڈ سی سے ملاتا ہے مصر اور سعودی عرب کی تیل کی تمام تر تجارت اسی مقام سے ہوتی ہے ۔یہاں حوثیوںٕ کے قبضے کا مطلب سعودی اور مصر کےلیے مشکلات کا باعث ہے ۔اس لیے سعودی اور مصر کبھی نہیں چاہیں گے کہ اس جگہ پر ان کے مخالفین کا قبضہ ہو۔۔

پاکستان کیوں جنگ کا حصہ ہے؟

پاکستان ہمیشہ سے ہی سعودی عرب کے ساتھ ہے۔پہلے بھی ایسے تمام مواقع جب سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ کسی طرف سے آیا پاکستان نے سعودی عرب کا ساتھ دیا ۔اس کی اہم اور بڑی وجہ توسعودی عرب میں حرمین شریفین کا ہونا ہے جس سے مسلمان ہونے کے ناطے سے پاکستانی جڑے ہوئے ہیں اس مرتبہ سعودی عرب کا ساتھ دینے کی ایک دوسری وجہ بھی ہے وہ یہ کہ خلیجی ریاستیں بھی سعودی عرب کے ساتھ ہیں ۔سعودی عرب کو انکار خلیجی
ریاستوں کو بھی انکار ہوگا جس کا بھی پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا کہ پاکستان میں آنے والا زرمبادلہ کا بڑا حصہ انہی خلیجی ریاستوں سے آتاہے یہاں پاکستانی کام کرتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اردن،قطر،سوڈان اور مصر بھی اس جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ ہیں جن کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات ہیں ۔ اور سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم سب کے اباجان یعنی امریکا بھی یمن میں موجود باغی جن میں القاعدہ بھی شامل ہے کے خلاف کارروائی کا خواہشمند ہے ۔امریکا ڈرون حملوں سے یمن میں القاعدہ کا پیچھا کررہا ہے اس کےلیے اس کو صدر ہادی کی حمایت حاصل تھی ۔باغیوں کا قبضہ ہونے پر امریکا کے لیے ڈرون حملوں میں بھی مشکلات ہوں گی۔

مغرب کیوں خلاف ہے؟

امریکا اور یورپ پہلے ہی یمن میں القاعدہ کی پناہ گاہوں سے پریشان ہیں اور صدر عبدلرب منصور الہادی کی اجازت سے یمن میں القاعدہ کےخلاف ڈرون حملے کررہے تھے ۔۔اس صدر کے اقتدار سے جانے اور حوثیوں کے اقتدار میں آنے کا مطلب صاف ہے کہ یہاں ایسے عناصر کی حکومت ہوجائے گی جو مغرب کے خلاف ہیں اور یمن امریکا مخالف جنگجوں کی آسان اور محفوظ پناہ بن سکتاہے ۔۔۔


حوثی کون ہیں؟

حوثی شیعوں کے ایک فرقے زیدی سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی ہے جو یمن کی ایک تہائی آبادی ہیں یہ قبیلہ ایک ہزارسال سے شمالی یمن پر حکومت کرتارہا ہے یہ حکومت 1962تک قائم رہی ۔۔حوثیوں نے یہ نام اپنے پیشوا حسین بدرالدین الحوثی سے لیا جنہوں نے 2004میں حوثیوں کے اکثریتی صوبے سادا کی خود مختاری کی تحریک شروع کی ۔2004مٰیں حسین حوثی کو یمنی فوج نے ہلاک کردیا جس کے بعد یہ قبیلہ بغاوت پر اتر آیا۔۔اس کی موت کے بعد اس کے خاندان کے
افراد نے باغیوں کی قیادت کی اور 2010میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی ہوگئی ۔2011میں جب یمنی صدر عبداللہ صالح کا اقتدار ختم ہورہا تھا تو حوثیوں نے اپنے صوبے سادا میں اثرورسوخ بڑھانے اور اپنے علاقے کو وسعت دینے کےلیے صدر کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔صدر منصورہادی کے اقتدار میں آنے کے بعد ان سے اپنے علاقے کی زیادہ خود مختاری کےلیے مذاکرات بھی کرتے رہے لیکن جب صدر ہادی نے فروری 2014میں 6ریجنز کی فیڈریشن کا اعلان کیا تو حوثیوں نے اس سے اتفاق نہ کیا اور جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔


No comments: