Monday, April 6, 2015

PAKISTANI BUREAUCRACY AND COURTS


ایک چاول 

دوروز پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک کیس کی سنوائی ہوئی یہ کیس ایک 19ویں گریڈ کے بیوروکریٹ نے دائر کررکھاہے جو توہین عدالت کے متعلق ہے اسلام آباد ہائی کورٹ ایک سال پہلے اسی بیوروکریٹ کے حق میں کیس کا فیصلہ دے چکی ہے جس پر ان بیوروکریٹ کی خواہش کےمطابق عمل نہ ہونے پر انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت
کی درخواست دائر کی ہے گوکہ تازہ سنوائی میں اس بات پر زیادہ زور دیا گیا ہے کہ ایک 21ویں
گریڈ کا بیوروکریٹ نے وزیراعظم کا اختیار استعمال کرتے ہوئے ان صاحب کی سمری بغیر وزیراعظم کو دکھائے خود ہی مسترد کرکے واپس بھجوادی جس پر عدالت نے وزیراعظم کے ایڈیشنل سیکریٹری فواد حس فواد سے بھی جواب مانگ لیا ہے ۔میرا موضوع فی الحال یہ نہیں ہے میں اس کیس کو پڑھ کر کل سے مسلسل اس مسئلے میں الجھا ہوا ہوں کہ ہمارے یہ بیوروکریٹ یابوبو کام کس وقت کرتے ہیں کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اکثر کیسزانہی کے دائر اور سنے جاتے ہیں۔

کہانی یوں ہے کہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹ سروسز کے 19ویں گریڈ کے ایک بیوروکریٹ اسلم چودھری نے 2013میں وزارت تجارت کو کو بیرون ملک ٹریڈ افسر کی آسامی کےلیے درخواست دی کہ انہیں بیرون ملک پاکستانی سفارتخانے میں ٹریڈ افسر لگادیا جائے ۔وزارت نے ان کی درخواست قبول کی اور وہ بیرون ملک اس سیٹ کے لیے منتخب کرلیے گئے ۔ وہ منتخب ہوئے تو ان کی والدہ بیمار پڑ گئیں انہوں نے بیرون ملک جانے سے اس لیے معذرت کرلی کہ وہ اپنی والدہ کو چھوڑ کر نہیں جاناچاہتے تھے ۔وزارت نے ان کی معذرت کےبعد کسی دوسرے افسر کو اس سیٹ پر لگاکر باہر بھیج دیا۔

اسلم چودھری صاحب کو یہ بات بری لگی کہ اس سیٹ پر صرف انہی کا حق تھا چاہے کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہو وزارت کو ان کےلیے یہ سیٹ رکھنی چاہیئے تھی،اس لیے انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی کہ عدالت وزارت کو حکم دے کہ انہیں باہر بھجوایاجائے ۔عدالت اور خاص طورپر اسلام آباد ہائی کورٹ تو ہے انتہائی سخی اور فیاض کہ جو بھی پہلے مسئلہ لےکر پہنچ جائے اس کی فوری سنی جاتی ہے یہاں بھی ایسے ہی ہوا عدالت نے27نومبر2014کو وزارت کو حکم دیا کہ اسلم چودھری صاحب کو جیسے بھی ہو یہاں بھی آسامی ہو بیرون ملک بھجوادیا جائے ۔

وزارت نے ان کو باہر نوکری کےلیے کوشش کی اور ایک سمری 16جنوری 2015کو وزیراعظم کو بھجوائی لیکن وہ سمری وزیراعظم ہاؤس سے نامراد واپس آگئی ۔۔اس سمری کے واپس آنے پر چودھری اسلم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزارت تجارت کےخلاف توہیس عدالت کی درخواست دائر کردی جس کی سنوائی آج کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں جاری ہے اسی سماعت کے دوران موصوف اسلم چودھری کے وکیل نے بتایاکہ اسلم چودھری کی سمری وزیراعظم نے نہیں بلکہ ان کے ایڈشنل سیکریٹری فواد حسن فواد نے خود ہی مسترد کرکے واپس بھجوائی ہے ۔یعنی ان کا خیال ہے کہ اگر ی سمری وزیر اعظم کے سامنے جاتی تو انہیں اس کو رد کرنے کی جرت نہ ہوتی ۔۔یا پھر چودھری اسلم صاحب توہین عدالت کی یہ درخواست وزیراعظم صاحب کے خلاف دائرکرتے۔۔

میں سوچ رہا ہوں یہ بیوروکریٹ صاحب جو کوئی بھی ہیں وہ پچھلے دوسال سے صرف ون پوائنٹ ایجنڈے پر کام کررہے ہیں کہ انہیں کسی نہ کسی طرح بیرون ملک کسی سفارتخانے میں ٹریڈ افسر لگنا ہے ۔وہ پچھلے دوسال سے آڈٹ اینڈ اکاؤنٹ یہاں وہ تعینات ہیں کیا ڈیوٹی انجام دے رہے ہوں گے آپ بھی اندازہ لگالیں۔۔۔ایک ریاستی نوکر کی ترجیح کام کرنا نہیں ہے بلکہ بیرون ملک کام کرنا ہے چاہے اس میں جتنے بھی سال لگیں جتنی بھی عدالتوں میں جانا پڑے وہ جائیں گے۔۔یہ ہماری بیوروکریسی کی دیگ کا ایک چاول ہے۔۔اسی سے اندازہ لگالیں۔۔اس کیس میں کون غلط ہے کون درست؟کیا وزارت اس لیے ایک سیٹ خالی رکھے کہ ایک شخص کی والدہ بیمار ہے اور وہ فوری جانا نہیں چاہتا؟یا ریاست اس سپوت کےانتظار میں اس سیٹ پر کام بند کردے؟اور کیا عدالت پر فرض ہے کہ وہ حکومت کو لازمی حکم دے کہ اس افسر کو اسی سیٹ پر لازمی لگایا جائے حالانکہ وہ خود پہلے جانے سے انکار کرچکے ہوں؟؟



No comments: