Monday, May 4, 2015

PAKISTAN'S FORGOTTEN PAST



ایان سے مرزا تک
ہم ہیں پاکستانی۔۔۔۔

ہمیں اپنی حالت،اخلاقی اقداراور ذہنی پستی کا اندازہ لگانے کا روزانہ کسی نہ کسی بہانے موقع ملتا رہتاہے،ہم اس پیمانے پر اپنے آپ کو تولتے بھی ہیں،اپنے اوپر لعن طعن بھی بعض اوقات کرتے ہیں لیکن خود ہی بے بسی کا اظہار کرکے ایسے رویوں کی طرف داری بھی کرجاتے ہیں۔آج ایک خبر نظر سے گزری
کہ ماڈل ایان علی کی جیل بیرک میں ڈیوٹی لگوانے کےلیے جیل اہلکاروں میں لڑائیاں ہورہی ہیں اور جیلر صاحب قرعہ اندازی کے ذریعے ڈیوٹیاں لگارہے ہیں،شاید ان کی یہی کشش ہوگی کہ کسٹم والے ان کا چالان مکمل نہیں کررہے کہ شاید یہ پری رہا ہوکر جیل اہلکاروں کا دل ہی نہ توڑ جائے۔سوچ رہا ہوں کہ

مصیبت کے مارے قیدیوں کے لواحقین کو ان سے ملوانے کےلیے رشوتیں وصول کرتے جیل اہلکار،قیدیوں کے کھانے سے اچھی چیزیں نکالنے اور سگریٹ کی ڈبیاں ان تک پہنچنے سے پہلے ہی غائب کردینے کے عادی یہ جیل اہلکار صرف ایک اداکارہ اور ماڈل کے سامنے ڈیوٹی دینے کےلیے خود رشوتیں دینے پر اترے پھر رہے ہیں؟یہ ہماری سوسائٹی کی دیگ کا ایک چاول ہے،اسی کو چکھ کر ہماری اخلاقی پستی کا اندازہ فرمالیں،میں کو ئی حاجی ہوں نہ وعظ کررہا ہوں میں جیلر ہوتا تو شاید اپنی ڈیوٹی ہی لگالیتا لیکن لکھنے کا مقصد ہے کہ ہم ایسے ہی ہیں۔۔پھر کہتے ہیں معاشرہ ترقی نہیں کرتا۔


ماڈل ایان علی کے کیس سے کچھ نہیں نکلے گا،اس کیس کے چالان سے پہلے ہی یار دوستوں نے زیر نکال دیا ہے،سابق صدر جناب آصف علی زرداری کے جس پی اے کا پاس استعمال کرتے ہوئے محترمہ وی آئی پی لانج میں پہنچیں،کوئی طرم خان اس پی اے سے تفتیش نہیں کرے گا،رحمان ملک کابھائی جو گرفتاری کی خبر سن کر فوری ایئر پورٹ پہنچا اس کو بھی کوئی کچھ نہیں کہے گا،ایان علی اپنے بھول پن کو اپنی بے گناہی کوثبوت بنائے گی اور ضمانت پر رہا ہوجائے گی۔اور ضمانت کے بعد اس پاکستان میں ہر مضبوط سےمضبوط سے کیس کھڈے لائن لگادیا جاتا ہے۔پاکستان میں مقدمے بنتے ہیں شوراٹھتا ہے عدلیہ مزے لیتی ہے،جب دل بھر جاتا ہے یا مقصد پورا ہوجاتا ہے اس کیس کوکارپٹ کے نیچے دبایا پھر کسی کازلسٹ میں اس کی باری ہی نہیں آتی ،اللہ اللہ خیر سلہ۔۔۔

ماضی بعید اور قریب کے کچھ کیسزکو یاد کرتے ہیں جو اسی کارپٹ 
کے نیچے گند کی طرح پڑے ہیں اور پڑے ہی رہیں گے۔۔

لیاقت علی خان کا قتل کیس:

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کا کیس کیسے چلا اس کی کوئی زیادہ تفصیلات نہیں ہیں لیکن تاریخ کوپڑھنے سے
یہ تاثر ملتاہے کہ یہ مقدمہ ابھی تک حل طلب ہے کچھ حقائق تو یہ ہیں کہ لیاقت علی خان کو مارنے والے کو اسی وقت گولی ماردی گئی تھی لٰہذا قاتل ختم کو قصہ ختم،لیکن سازش کس نے کی یہ جاننے کی کوشش ہی نہ کرنے دی گئی۔اور نہ آئندہ رہتی دنیا تک کرنے دی جائے گی۔

سقوط ڈھاکا:

دسمبر1971میں پاکستان ٹوٹ گیا،ذمہ دارذوالفقار علی بھٹواور مجیب دونوں ہی تھے لیکن بھٹو چاہتے تو معاملہ حل کیا جاسکتاہے،جنرل یحیٰ نے کوشش کی لیکن بھٹو صاحب نے دھمکی دے ماری کہ جیت کانشہ انہیں ملک سے پیارا تھا۔ملک کیوں ٹوٹا اس کی تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں تھی سب سامنے اور صاف تھا لیکن کمیشن بنادیا گیا،جسٹس حمودالرحمان کمیشن کی رپور ٹ  بھی اسامہ بن لادن کمیشن جیسی ہی تھی۔کون ذمہ دار تھا کیا وجہ تھی کون  ملزم کون نہیں سب اسی کارپٹ کے نیچے اور بھٹو صاحب اپنی انا اور مقبولیت کابت کاندھوں پر اٹھائے دنیا سے رخصت ہوگئے۔

این آراو کیس:

مشرف صاحب نے شراکت اقتداراور بے نظیر کو وطن لانے کے عالمی طاقتوں کے دبائو پر سب کھایا پیا معاف کردیا۔خود ہی جج بنے اورسب کو معافی دے ڈالی،1999کے بعد گناہ کرنے والے پاک صاف
افتخار چودھری
ہوگئے،اس سے پہلے والے بدستور گناہگارہیں۔افتخار چودھری صاحب کے ہاتھ میں مشرف کی دم آئی تو انہوں نے خوب لٹاڑنے کا پروگرام بنایا،این آر او ختم کردیا،اچھی بات یوئی لیکن عمل کون کرائے؟ پھر این آراو عملدرآمد کیس شروع ہوا،ہم نے تو ابھی تک نہیں سنا کہ فلا ں کا مقدمہ جو این آر او کی وجہ سے ختم ہوا تھا اس کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا ہے۔۔وہ عملدرامد کا کیس بھی سپریم کورٹ کے اسی کمرے میں ہے یہاں میمو گیٹ پڑا ہوا ہے۔

اسامہ بن لادن کمیشن:

اسامہ پاکستان سے ماراگیا،حقیقت ہے یا فسانہ کچھ پتہ نہیں اور نہ ہی اس کی جانچ کرنے والے جسٹس جاوید اقبال کمیشن نے قوم کو پتہ لگنے دیا ہے اور نہ لگنے دیا جائے گا،آئندہ آنے والی نسلیں اسی طرح یاد رکھیں گی جیسے ہمیں کسی حمودالرحمان کمیشن رپورٹ بارے معلوم ہے۔اسامہ کمیشن کی رپورٹ بن چکی ہے وزیراعظم نے اپنے پاس رکھ چھوڑی ہے۔اگر سیاسی طور پر فوج یا زرداری حکومت کےخلاف استعمال کرنے کی ضرورت پڑی توپرویز رشید صاحب لہراکے دکھادیں گے اور بس۔۔

میمو گیٹ:

اسامہ قتل کے بعد ملک میں ایک طوفان اٹھا کہ حسین حقانی نے فوج کے خلاف امریکا سے مدد مانگ لی ہے،میمو کا کیس سپریم  کورٹ جناب
حسین حقانی
افتخار چودھری کے پاس چلا گیا۔میاں نوازشریف نے وکلا کا جبہ مبارک پہن لیا اور سپریم کورٹ پہنچ گئے،حکومت نے حسین حقانی کو امریکی سفارت کاری سے ہٹا کر واپس بلوالیا۔ہٹو بچو کاور اٹھا،فوج کی طرف سے ایفی ڈیوٹ آگیا یوں لگا کہ حسین حقانی اب گیا کہ اب۔۔لیکن کیا ہوا،محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ آگے بڑھیں حسین حقانی حاحب کا کیس لڑا،عدالت سے ان کے باہر جانے کی اجازت لےہلی،اور سپریم کورٹ نے یہ اجازت دیدی۔۔حسین حقانی صاحب باہر چلے گئے،حال مقیم امریکا اور وہاں امریکی مفادات کے بدلے زندگی اور پرتعیش لائف اسٹائل انجوائے کررہے ہیں اور میموگیٹ کا مقدمہ سپریم کورٹ کی الماری میں دیمک لگنے کامنتظر ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاون:

جون 2014کوماڈل ٹاون میں ادارہ منہاج القرآن میں دس افراد پولیس کی گولیوں سے مرگئے،درست مرے یا غلط مرے فیصلہ عدالتوں سے ہوناتھا،سال ہونے کو آگیا،کیس کسی اوٹ نہیں بیٹھا،دھرنا دیا گیا،وزیر اعظم سمیت وزرا مقدمے میں نامزد ہوگئے،جے آئی ٹی بن گئی،کام ایک دھیلے کا نہ ہوا،کمیشن کی رپورٹ دبا دی گئی،طاہرالقادری جو مدعی ہیں باہر چلے گئے،معامہ بیانات کی حد تک رہ گیا،سب کاروبار ویسے ہی چل رہا،منہاج  القرآن میں ان لوگوں کی تصویروں کے بینروں کے سوا اور کچھ بھی نہیں ادارہ روٹین میں چل رہا ہے،مقدمے کی ایف آئی آر فیصل ٹآن تھانے میں پڑی تفتیشی چالان کاانتظار کررہی ہے اور کرتی رہے گی۔۔

نائن زیرو کیس:

ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے کے بعد ہمارے رینجرزکے بھائیوں نے عزیزآباد تھانے میں الطاف حسین کے خلاف دھمکیوں کامقدمہ درج کرایاتھا،اس دن یوں لگ رہا تھا جیسے رینجرز خود لند جاکر الطاف حسین کو گھسیٹے ہوئے کراچی لائیں گے اور مکا چوک پر لٹکا دیں گے،لیکن دوماہ ہونے کوآئے اس کیس بارے کسی نے کیا کبھی سنا؟ کو ئی تفتیشی افسراس کی تفتیش پر معمورہوا؟ہوگا بھی نہیں۔

ذوالفقارمرزاکیس:

ذوالفقار مرزانے زرداری سے دشمنی کابدلہ بدین میں ایک پولیس تھانے کے اہلکاروں سے لڑکر لیا ہے،یہ حرکت ذلیل اور شرمناک ہے لیکن کیا حکومت مرزے پر ہاتھ ڈالے گی،،نہیں بالکل نہیں کل سے پولیس بیٹھی ہے لیکن اس کو گرفتاری سے روک رکھا ہے،پی پی نے اپنی عورتوں کومیڈیا میں لاکر جو لعن طعن کروانی تھی کروالی اس سے آگے کچھ نہیں ہوگا۔


یہ مقدمے تو صرف چند نمونے ہیں مضمون لمبا ہورہاہے اس لیے ختم کرتا ہوں،آپ بھی ذہن دوڑائیں سیکڑوں مثالیں مل جائیں گی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔۔جاری رہے گا۔۔کیونکہ ہم ایسے ہیں،تماشہ دیکھا بھول گئے پھر اگلے تماشے کی تلاش میں نکل لیے۔۔۔۔۔

No comments: