Tuesday, June 17, 2014

OPERATION MODEL TOWN


اب تیرکی مرضی۔۔۔۔۔

 مبارک ہو1965 کی جنگ کےبعد اس قوم(95فیصد) نے پورے دو دن متحدہ رہنے اور مشترکہ دشمن کے خلاف لڑنے کےعزم  کاریکارڈ قائم کردیا۔قوم کو یہ عالمی ریکارڈ بنانے کا موقع جنہوں نے فراہم کیاانہوں نے ہی ریکارڈ توڑنے کا موقع بھی دیا ۔30 سال کی تحریک منہاج القرآن میں آج پہلی مرتبہ 8 شہدا کا خوان شامل  ہوگیا۔خون تو ایک کا ہی کافی ہوتا ہے یہاں تو8ہیں۔

آج لاہور کا پرامن ترین علاقہ ماڈل ٹاون پورادن بارود اور گولیوں کی آوازوں سے آونجتارہا۔آنسو گیس سے منہاج القرآن کے کارکنوں کی آنکھوں سے آنسو اور گلے  کا سانس خشک ہوتا رہا۔جو ہوا۔۔۔۔ نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ایک ایسے وقت میں جب پوری  قوم یہاں تک کہ آپریشن کے سخت ترین مخالف بھی دہشتگردوں کو اس ملک سے دفع دور کرنے پر متفق تھے مسلح افواج کو اس قوم کے اتحاد کی سخت ضرورت تھی ایسے وقت میں پنجاب پولیس کی ادارہ منہاج القرآن اور اس کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر بکتر بند گاڑیوں سمیت چڑھائی ہر عقل بلکہ اب تو بے عقل کےلیے بھی سمجھ سے باہر ہے ۔


حیران کن بات یہ ہے کہ جو کام مذاکرات، بات چیت اور صلح صفائی سے ہوسکتا  تھا اس کے لیے بلڈوزر اور پولیس کی نفری کے ساتھ آنا اور ماردھاڑ شرمناک ہے۔سب کچھ قابل قبول ہوسکتا ہے لیکن اتنے لوگوں کا پولیس کے ہاتھوں خون کسی صورت قبول نہیں نہ صرف منہاج القرآن کے کارکنوں کے لیے بلکہ اس ملک کے رہنے والے ہر شہری کےلیے چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو۔اورہاں 
اس سانحہ کا ذمہ دارصرف پولیس کو ٹھہرانا بھی زیادتی ہی ہوگی۔

معروضی حالات کا تجزیہ کوئی زیادہ مشکل نہیں ۔تجاوزات ہٹانے کےلیے پلان کیا گیا یہ اپنی نوعیت کا واحد آپریشن تھا۔ہروز کسی نہ کسی جگہ سے تجاوزات ہٹائے جاتے ہیں لیکن کسی کے مرنے کی اطلاع نہیں آتی اس لیے یہ آپریشن محض تجاوزات کے لیے نہیں تھا۔اور لاہور سمیت ملک میں انٹی تجاوزات مہم چلتی ہے انٹی انکروچمنٹ سیل دن کی روشنی میں آتا ہے توڑ پھوڑ کرتا ہے مزاحمت پر گولی نہیں لاٹھیاں چلتی ہیں لوگ زخمی بھی ہوتے ہیں لیکن موت کو نگلنا بہت مشکل ہے۔

یہ کیسا تجاوزات کے خلاف آپریشن تھا کہ رات کے بارہ بجے پولیس کی ایک ہزار کے قریب نفری ادارہ منہاج القرآن کے گردو نواح میں جمع ہونا شروع ہوئی۔منہاج القرآن کے کارکنوں کو بھنک پڑی تو انہوں نے سوتے ہوئے طلباء اور کارکنوں کو اٹھانا  شروع کیا۔کارکن اپنے قائدکے گھر کی حفاظت میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔پولیس پر پتھراو ہوا۔پولیس کی طرف سے آنسو گیس شروع ہوئی اس وقت فائرنگ بھی ہوائی ہی تھی۔ایک طالب علم ریحان کو پہلی گولی رات اڑھائی بجے اس وقت لگی جب وہ آنسو گیس کاشیل اٹھانے کےلیے پولیس کے بہت قریب پہنچ گیا۔گولی نے بازو کو معمولی زخمی کیا۔جسے اس کے دوست کاشف نے جناح اسپتال منتقل کیا۔ اس کے بعد دن گیارہ بجے تک کسی کارکن کوگولی نہیں لگی۔

دن کے دس بجے تک رات سے آئی پولیس تھک چکی تھی پسپا ہوچکی تھی۔پولیس کوشش کے باوجود ڈاکٹر طاہرالقادری کی گلی میں بھی داخل نہ ہوسکی ۔ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار ہار ماننے کو تیار نہ تھے ۔رانا جبار نے ہار کے ڈر سے اپنی انا کی تسکین اور اپنے آقاوں کے سامنے سرخرو ہونے کےلیے انٹی ٹیررسٹ اسکواڈ اور ایلیٹ فورس کو بلوالیا۔اس فورس کو آتے ہی ہر حال میں منہاج القرآن کے اندر داخل ہونے کا ٹاسک دیا گیا ۔کارکن جو رات سے پولیس سے لڑرہے تھے اس رد عمل کےلیے تیار نہ تھے ۔کارکنوں کی بڑی تعداد منہاج القرآن کے باہر فٹ بال گراونڈ میں جمع تھی ۔ایلیٹ فورس کے جوان آگے بڑھے اور سیدھی گولیاں چلائی گئیں یہ گولیاں کئی افراد کو لگیں جس سے شہادتیں شروع ہوگئیں ۔سیدھی گولیوں سے بچنے کےلیے تمام کارکن سمٹ کر اندر چلے گئے ۔میدان صاف ہوگیا ۔انٹی انکروچمنٹ سیل کے بلڈوزر آگے بڑھے راستے میں جو کچھ آیا ملیا میٹ ہوا۔

یہاں تک آپریشن تھا اس کے بعد غندہ گردی شروع ہوئی منہاج القرآن کا دیو قامت جنریٹر جو تجاوزات نہیں تھا اس کو ملیا میٹ کردیا گیا۔پھر پولیس نے اپنے ایک غنڈے کو بڑی لاٹھی دی اور کہا کہ جتنی گاڑیاں کھڑی ہیں سب کو توڑ دو۔گلو بٹ نامی اس مسخرے نے پولیس کی حفاظت میں گاڑیوں کو توڑڈالا۔یہاں پولیس کی بدنیتی اور بددیانتی بالکل واضح ہوگئی۔


  تجاوزات ہٹانے کےلیے اپنی نوع کا یہ انوکھا آپریشن اگر آپ کی سمجھ میں آئے تو کمنٹ کرکے مجھے بھی بتادیجئے گا میری سمجھ تو یہاں جواب دے گئی ہے ۔اگر ن لیگ کی حکومت نے یہ سب کچھ پلان کرکے کیا ہے تو اسے صرف یہی کہا جاتا ہے کہ حکومت نے اڑتا ہوا تیر ۔۔۔۔۔ میں لے لیا ہے اب تیر کی مرضی ہے جو چاہے کرے۔۔۔۔۔

No comments: