Tuesday, November 12, 2013

LOCAL BODIES ELECTION?


              ایسےآنے سے تو بہترتھا نہ آنا دل کا                                   
                                              


پاکستان میں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہوئے پانچ سال کاعرصہ گزرچکاہے ۔پاکستانی آئین اوربلدیاتی  قوانین کے مطابق ملک میں بلدیاتی الیکشن کا سال دوہزار نو تھا لیکن جمہوری طور پر منتخب حکومتیں ٹال مٹول سے کام لیتی رہیں اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ پانچ سال گزر گئے۔صوبوں نے موقف اختیار کیا کہ پہلے سے موجود قوانین آمر کے بنائے گئے ہیں ہم اس پر نئی قانون سازی کرکے نیا نظام لائیں گے پھر اس نظام کو لانے میں تمام صوبوں نے پانچ سال گزار دیے ،آئینی اور قوانین کی خلاف ورزی سے بچنے کےلیے صوبوں نے کبھی آرڈیننس کا سہارا لیا کبھی ایگزیکٹوآرڈرسے  ڈی سو کو ڈی سی کرکے کام چلایاگیا کبھی ایڈمنسٹریٹرزلگاکر بلدیاتی اداروں کا منہ چڑایاگیا۔معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو سپریم کورٹ کی طرف سے وقتا فوقتا صوبوں کو بلدیاتی الیکشن کرانے پر تیار کیے جانے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن نتیجہ صفر ہی رہا۔منتخب حکومتوں نے پچھلا پورا دور بھی اسی ٹال مٹول میں گزارلیا تو اس سال نئی حکومتیں بننے کےبعد سپریم کورٹ نے سختی کرنا شروع کی  اور صوبوں سے واضح طور پر تاریخیں مانگنا شروع کردیں جس پر سندھ نے ستائیس نومبر اور پنجاب اور بلوچستان نے خود سات دسمبر کوبلدیاتی الیکشن کرانے کا وعدہ کرلیا جس پر سپریم کورٹ نے واضح حکم دیا کہ انہی تاریخوں کو الیکشن کرائے جائیں

۔سپریم کورٹ کے نقطہ نگاہ کودیکھا جائے تو عدالت عظمیٰ اس لیے الیکشن پر زور دے رہی ہے کہ اس نے آئین کا لازمی تقاضا پورا کرانا ہے ۔سپریم کورٹ کا کہناہےکہ ایک تو الیکشن کرانا آئینی ضرورت ہے اور دوسرا تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن کے دوران اپنے اپنے منشور میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا وعدہ کررکھاہے اس لیے کم ازکم ان کو اپنے منشور کےمطابق کام کرنا چاہیئے
دوسری طرف سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جب بات الیکشن کمیشن کی کورٹ میں گئی تو انہوں نے حساب کتاب لگانے کےبعد یہ نتیجہ اخد کیا کہ اتنے کم وقت میں الیکشن کا انعقاد ممکن ہی نہیں ہے ۔
صوبوں نے تاریخیں تودے دیں لیکن قانون سازی ہی پوری نہ کی
پنجاب میں  حکومت نے غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کا قانون بنایا جس کو لاہور ہائی کورٹ نے نامنظورکرتے ہوئے جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کا حکم دے دیا ۔
پنجاب حکومت نے نیا قانون جلدی میں تیار کیا اوراس میں کمزوریاں رہ گئیں
الیکشن کمیشن نے پرنٹنگ کارپوریشن کو بلیٹ پیپرز اور کاغذات نامزدگی چھاپنے کا حکم دیا تو وہاں سے جواب آگیا کہ اتنی کم مدت میں کروڑوں بیلٹ پیپر چھاپنا ممکن نہیں
الیکشن کمیشن نے پرائیویٹ پرنٹنگ پریس سے چھپوانے کی تجویز دی تو اسے سیکیورٹی کی وجہ  قراردے کر مسترد کردیاگیا
سندھ میں حلقہ بندیوں کا مسئلہ کھڑا ہوا جو ابھی تک بھی پورا حل نہیں ہوا
ووٹرلسٹوں کی تیاری اور پرنٹنگ کا مسئلہ بھی ابھی تک حل طلب ہے
الیکشن کمیشن نے مقناطیسی سیاہی تیار کرانا چاہی تو پی سی ایس آئی آر نے جواب دیدیا
انک پیڈ کی تیاری بھی نہیں ہوسکی
الیکشن کمیشن یہ تمام مسائل لےکر سپریم کورٹ چلاگیا لیکن سپریم کورٹ نے اس کی کہانی سننے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی اور اپنا پرانا حکم برقرار رکھا کہ جاو الیکشن کراؤ۔۔
سیاستدان ابھی بھی ایوانوں میں قراردادوں کے ذریعے یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ الیکشن ممکن نہیں لیکن کسی پر ان کا اثر نہیں ہورہا۔
اس سارے مسئلے سے نکلا کیسے جاسکتاہے ؟
الیکشن کمیشن نے رجسٹرار کےفیصلے پر نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ کرچکا ہے ممکن ہے سپریم کورٹ ریلیف دے دے۔
سپریم کورٹ وقت دے بھی سکتی ہے اور انکار بھی کرسکتی ہے
اگر انکار ہوا تو ممکن ہے تمام صوبائی اور مرکزی حکومت مل کر الگ سے سپریم کورٹ کے سامنے فریاد لےکرجائیں اور سپریم کورٹ اس کو سن لے۔
اگر تمام جتن کرنے کےبعد بھی بات سات دسمبر سے آگے نہ بڑھی تو ممکن ہے صوبے نئی قانون سازی کرلیں
اگر یہ حربہ بھی کارگر نہ ہوا تو یہ بات طے ہے کہ الیکشن تو شاید وقت پر ہوجائیں لیکن ایسی بدانتظامی ہوگی  کہ ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبورہوگا کہ ایسے الیکشن سے تو الیکشن نہ ہونابہترتھےبقول شاعر
ایسے آنے سے تو بہترتھا نہ آنا دل کا

No comments: