Monday, May 21, 2012

CHICAGO NATO SUMMIT 2012



شکاگوکانفرنس۔۔۔۔۔پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ




            قرض کی مے(یعنی ادھار کی شراب)پینے والوں کا نشہ اسی وقت تک برقراررہتا ہے جب تک قرض دینے والے واپسی کا تقاضا نہ کردیں۔ہمارا حال بھی کچھ ایساہی ہے قرض دینے والے اب نیٹو سپلائی لائن کھولنے کی صورت میں قرض کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں اور ہمارے سربراہ ریاست جناب آصف علی زرداری صاحب شکاگو کانفرنس کی ’’غیرمشروط‘‘ ملنے والی دعوت پر کانفرنس  میں شریک تو ہیں لیکن ایسے ہی جیسے کوئی بن بلائے مہمان ہو۔امریکی صدر باراک اوباما کے پاس افغانستان کے سربراہ حامد کرزئی سے ملنے کےلیے تو ٹائم ہے لیکن صدر آصف زرداری سے ملاقات سے انہوں نے صاف انکار کردیا ہے اور شرط وہی ہے کہ جب تک پاکستان نیٹو سپلائی لائن کھولنے کےلیے معاہدہ نہیں کرتا ملاقات نہیں ہوسکتی ۔۔اور ہمارے صدر کے حصے میں آئے ہیں وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن،مارک گراسمین اور سفیر کیمرون منٹر اگر انہی سے ملناتھا تو یہ تو پاکستان آکر بھی ملتے ہی رہتے ہیں۔ جہاں تک کہ غیرمشروط دعوت دینے والے نیٹو کے سیکرٹری راسموسن سے بھی زرداری صاحب کی ملاقات نہیں ہوسکی ۔ویسے یہ ’’غیر مشروط‘‘دعوت نامے کا شوشہ بھی ہمارے ہی ایوان صدر کے افلاطونوں نے چھوڑا تھا اگر ایسانہ بھی کہتے تو پوری قوم کو معلوم ہے شکاگو کانفرنس کی دعوت حاصل کرنے کےلیے ہی ہم نے دفاعی کمیٹی کا اجلا س بلایا اور نیٹو سپلائی کی بحالی کی داغ بیل ڈال دی اس طرح ہمیں ’’غیرمشروط‘‘دعوت نامہ تو مل گیا لیکن اوباما تک رسائی نہ مل سکی۔


          اس تصویر کو ذرا غور سے دیکھیں ۔۔آپ کو تو یوں ہی لگ رہا ہوگا جیسے صدر صاحب کسی بیرونی دورے سے واپس پاکستان لوٹے ہیں اور ایوان صدر کے اہلکار ان کا قصرصدارت پہنچنے پر استقبال کررہے ہیں۔۔لیکن جناب صور حال اس کے بالکل برعکس ہے ۔۔یہ صدر صاحب کے اسی ’’غیرمشروط‘‘ دعوت نامے کے نتیجے میں شکاگو پہنچنے پراستقبال کی  ہے اوراس کانفرنس نے میزبانوں نے یہ زحمت بھی نہیں کی کہ ایک سربراہ مملکت کے استقبال کے لیے اپنے وزیر مہمانداری کی ہی ڈیوٹی لگادی جائے ۔۔لیکن صدر صاحب کو استقبال چاہیئے اس لیے یہ اسٹیض سجایا گیا اور صدر کے طیارے میں ساتھ جانے والے ان کے پرنسپل سیکرٹری سلمان فاروقی ،صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر اور ان کے ملٹری سیکرٹی سمیت کئی افراد کو میزبانوں کی صف میں کھڑا کرکے شیری رحمان نے تعارف کے فرائض سرانجام دے دیے تاکہ آصف علی زرداری کے منصب کے تقاضے پورے کیے جاسکیں۔۔

 اس نیٹو کانفرنس کے اعلامیے کے جوٹکڑے میڈیا کی زینت بنے ہیں ان میں یہ روایتی جملہ بڑا            
ہی واضھ اور ہماری اناکی تسکین کرتا نظر آرہا ہےکہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی حل پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔۔کیا لطیفہ ہے بھی کہ جس مسئلے کا حل ہمارے بغیر ممکن نہیں ہے اس مسئلے کو حل کرنے والے ہمارے سربراہ مملکت سے ملنا ہی گوارا نہیں کرتے۔۔؟

       بات بڑی واضح ہے افغانستان کے مسئلے کا حل جو بھی ہوگا وہ پاکستان کے بغیر ہی ہوجائے گا ہماری ضرورت صرف اتنی ہے کہ نیٹو کو رسد پہنچانے کا خرچہ تھورا کم کیا جاسکے جو آخرکار پاکستان کو کرنا ہی ہے آج کردیتے تو صدر اوباما صدر زرداری سے عزت سے مل لیتے اور ان کے کردار کی تعریف کرتے لیکن کچھ دن بعد کریں گے تو شاید ایک ٹیلی فون پر کردار کی تعریف کردی جائے ۔۔ہمارے لیے تو یہ بھی بلکہ یہ ہی کافی ہے باقی اس نیٹو کانفرنس میں شرکت پرائی شادی میں عبداللہ دیوانے سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: