Saturday, May 19, 2012

PAKISTAN, A NATION ON DEBT



قرض کی پیتے تھے مے۔۔۔ 

بدقسمتی کہیں ،المیہ کہیں یا نااہل، لالچی اور کرپٹ قیادت کہ ہمارا پورا ملک ،ساری مشینری سارے کام ادھار پر چل رہے ہیں۔ بجلی بنانے کے سارے کارخانے ادھار پر چل رہے ہیں۔جب ادھار برداشت سے بڑھتا ہے تو بجلی کی پیداوار بند کردی جاتی ہے اور اس ادھار کی قیمت چکاتاہے اس ریاست میں رہنے والے مجبور لوگ۔۔۔اس پر مستزاد یہ کہ یہ ادھار عوام نہیں کرتے عوام کےلیے تو بجلی کا بل دینے کی ایک ڈیڈلائن بل کے ساتھ ہی چپک کر آتی ہے دیری ہوجائے تو جو بجلی آتی ہے وہ بھی کٹ جاتی ہے۔یہ ادھار بھی حکومت ہی کرتی ہے اورجس سے ادھار ہوتا ہے، تیل سپلائی کرنے والا ادارہ یعنی پاکستان اسٹیٹ آئل بھی حکومت کا۔ترجیحات کااندازہ آپ خود کرلیں۔۔جب پانی سر سے گزرتاہے لوگ احتجاج کرتے ہیں توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور اس کے عوض ڈنڈے کھاتے ہیں تو ایوان صدر کی طرف سے نوٹس لیا جاتاہے اور قصر صدارت میں ادھار کرنے اور ادھار پر پلنے والے سارے اکھٹے ہوتے ہیں اور اور کچھ پیسے تیل والوں کو مل جاتے ہیں اور بجلی کی پیداوار شروع کردی جاتی ہے اور پھر چار دن بعد پیسہ ہضم اور کھیل ختم۔۔۔۔ 

سلالہ چیک پوسٹ پر ہمارے فوجیوں کا جانی نقصان ہوا تو نیٹوکی سپلائی لائن بند کرکے حساب برابر یاپھر ریٹ بڑھانے کی ترکیب نکالی گئی اور ایک سو ستر دن بعد احساس ہوا کہ حساب برابر ہونے کے بجائے خسارہ ہی حسارہ ہاتھ آرہاہے۔۔اور ادھار نہ ملاتوآنے والا بجٹ نہیں بنے گا۔۔اور بجٹ نہیں بنے گا کھائیں گے کہاں سے ؟کھانے کی فکر صرف حکمرانوں کو ہے عوام نے تو اپنا کما کرہی کھاناہے۔۔۔۔تو ہوگیا نیٹو کی سپلائی لائن بحال کرنے کا فیصلہ اور حساب تو برابر نہ ہوا بس ہمارا ریٹ تھوڑا سا بڑھ گیا اور آئی ایم ایف سے ادھار لینے کی راہ ہموار ہوگئی۔۔۔صدر صاحب نے ایک منٹ نہیں لگایا اور جاپہنچے شکاگو۔۔۔یہاں وہ پھر اپنی قربانیوں کا ذکر کریں گے اور ادھار مانگیں گے۔۔ 

بیرانی قرضے تو بڑھے سو بڑھے اندرونی قرضوں کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں رہا۔چار سالوں میں گیارہ کھرب کے نوٹ چھاپ کر عوام کو مہنگائی کے تندور میں ڈالا اور کھربوں کے قرضے اسٹیٹ بینک سے لے لیے۔۔جن پر وزیروں کی فوج پل رہی ہے ۔۔۔ 

جب پورا ملک ادھار پر چل رہا ہے تو پھر ایک شفقت عوام پر بھی کیوں نہ ہوجائے کہ اسے بھی ادھار کی سہولت دے دی جائے اور ادائیگی کا طریقہ بھی وہی ہو جو حکمرانوں کےلیے مروج ہے یعنی واپسی ۔۔۔۔ہاہاہاہا۔ 

اسی دن کےلیے غالب نے کہا تھا 

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتےتھےکہ ہاں 

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن 



No comments: