Sunday, October 27, 2024

Hamid MIR and his venom


حامد میرسے یہی توقع تھی۔۔۔ 

قاضی کاجرم یہ ہے کہ پوری قوم کوپاپولرفیصلوں کی عادت تھی لیکن قاضی صاحب نے کسی پارٹی کی خواہش،یا اپنی ٹرولنگ کی فکر کیے بغیر قانون کے مطابق فیصلہ دیدیا۔ قاضی کا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے سپریم کورٹ کی سماعت کو لائیو کرکے گروگھنٹال وکلا اور قانونی ماہرین کو ایکسپوز کردیا ہے۔ قاضی کا جرم یہ بھی ہے اس نے اپنی آمریت قائم کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کوسپریم تسلیم کرلیا ہے۔قاضی کا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے کسی کے”کرش“میں آئین کو دوبارہ لکھنے سے انکارکیا ہے۔قاضی کا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے الیکشن کی تاریخ کو پتھر پر لکیر کہہ کر اس پرپہرہ بھی دیا ہے۔حیرت پی ٹی آئی کے دوستوں پر بالکل نہیں بلکہ ان پر ہے جو صحافی کہلاتے ہیں لیکن اس فیصلے میں آئین اور قانون کی بجائے کسی پاپولرفیصلے کی توقع پوری نہ ہونے پراچھل اچھل کر چھتیں توڑرہے ہیں اوربددیانتی سے پی ٹی آئی وکلا کی بجائے قانون کے مطابق فیصلہ دینے والے چیف جسٹس  پرتنقید کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ کوجسٹس منیر سے ملانا چاہتے ہیں



یہ میرے سولہ جنوری 2024کے کالم کی چند سطریں ہیں۔یہ کالم اس وقت لکھا تھا جب مقبولیت پرست گروہ آئین اورقانون کے عین مطابق پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن نہ کروانے کے فیصلے پرپی ٹی آئی سے الیکشن نہ کروانے کاسوال کرنے کی بجائے چور کے کوتوال کو ڈانٹنے جیسا رویہ اپنائے ہوئے تھا۔ایسے لوگوں کا دکھ نہ اس ملک کا آئین ہے نہ قانون۔ایسے لوگوں کا دکھ اس ملک میں چند لوگوں سے اپنی نفرت،ایک پارٹی سے محبت اور اپنی ذات کا منافع ہے۔ایسے لوگ صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے بھیس میں ”فیکیے“ ہیں جو اس معاشرے کی ”تانی“ کو جھوٹ پھیلاکر کاٹ رہے ہیں۔ان کا چونکہ کسی نے راستہ نہیں کاٹا اس لیے ان کے دانت اتنے تیز ہوگئے ہیں کہ اب اس ملک میں کسی کی پگڑی ان سے محفوظ نہیں۔ان لوگوں کی معیشت اس نفرت کے کھیت سے وابستہ ہے۔یہ نفرت کی کھیتی ان کے لیے ڈالرا گاتی ہے اور مقبولیت پرست گروہ اس کھیتی سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے۔

ایسے”دولہے شاہ“ دانشوروں میں ایک نام حامد میر صاحب کا بھی ہے۔ حامد میرفوج سے اپنی روایتی نفرت میں ہر اس شخص کی پوجا کرنے لگتے ہیں جو اپنی ذات یا سیاسی اسکور برابر کرنے کے لیے پاک فوج کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ میرصاحب اپنی سوچ،رائے اور تجزیے کو ”مقبولیت پرست“ گروہ کے ہاں کافی عرصے سے گروی رکھ چکے ہیں۔فوج سے نفرت کے بہاؤمیں بہتے چلے جارہے ہیں اور اپنا قلم”مقبولیت پرست“ گروہ کی خوراک کے لیے وقف کرچکے ہیں۔انہوں نے جانے والے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اپنے اندر مقبولیت پرستوں والا زہر پال رکھا تھا لیکن وہ یہ زہر تھوکنے کے لیے قاضی صاحب کے  جانے کا انتظار کررہے تھے۔ مجھے حامد میر صاحب سے یہی توقع تھی جو انہوں نے اپنے حالیہ کالم میں قاضی صاحب کو جسٹس منیرقراردیکر چاندپر تھوکاہے۔

جناب حامد میرصاحب کو یہ روانی،شہرت، صحافیانہ مقبولیت اور ریٹنگ اس لیے میسر ہے کہ ان کے پاس جنگ کا کالم اور جیونیوز کی سکرین ہے۔ان سے یہ دونوں چیزیں واپس لے لی جائیں تو حامد میر صاحب اپنی آوازاورالفاظ لوگوں کو سنانے کے لیے جدوجہد کرتے دکھائی دیں گے۔کچھ عرصہ قبل ان کو زعم ہوگیا تھا کہ وہ بہت مقبول اینکر ہیں اور جس ٹی وی سے اپنا نام جوڑیں گے وہ ٹی وی شہرت کے آسمان پر پہنچ جائے گا۔ان کے بھائی عامیر میر صاحب لاہورسے زبیر چٹھہ صاحب کاچینل  شروع کرنے لگے تو انہوں نے منصوبہ بنایا کہ حامد میر کو جیوسے توڑکر  اس چینل سے جوڑ دیا جائے تویہ جیوکو مات دے دے گا۔اس گیم میں حامد میر صاحب کو ”گج وج“ کے جیوسے جی این این لایا گیا لیکن جیوسے اترنے اور جنگ سے محروم ہونے کی دیر تھی کہ حامد میر صاحب کو خود کی شکل بھولنے لگ گئی۔یہی حامد میر تھے جو جیو پر شو کرتے تو پہلے نمبر پر آتا تھا اور جی این این کے کنویں میں گرنے سے جنگل اور مور جیسے حالات ہو نے لگے تو حامد میر جی این این کو ادھورا چھوڑ کرواپس جیو بھاگ آئے۔

حامد میر صاحب اصول پرست اور بہادر اتنے ہیں کہ جب عمران خا ن صاحب کے دورمیں یوٹیوبر اسد طورپر تشدد ہوا تو حامد میر کو فوج کے خلاف زہر تھوکنے کا ایک اور موقع مل گیا۔انہوں نے اسد طورکے حق میں ایک  مظاہرے کے دوران جنرل فیض حمید پر بغیر ثبوت کچھ الزامات لگادیے۔ان الزامات نے ان کو آف ایئر کردیا۔چند ماہ جیو اور جنگ سے دور ہوئے تو اس مقبول صحافی کو ”نانی چیتے“آگئی  اور پھر حامد میر صاحب نے جس نیشنل پریس کلب کے سامنے کھڑے ہوکر فیض حمید پرالزامات لگائے تھے اسی پریس کلب میں پی ایف یو جے اور کچھ دیگر”گارنٹرز“کی گارنٹی پر فیض حمید سے معافی تلافی کے بعد دوبارہ سکرین پر آنے میں کامیاب ہوئے تھے۔یہ فوج کی نفرت کا ہی فیض تھا کہ حامد میر نے اپنے سخت ترین مخالفین عمران ریاض اور صدیق جان جیسے لوگوں،جو حامد میر کی کردارکشی کیا کرتے تھے، ان کے ساتھ ہاتھ ملالیے اور پھر جم کر فوج کی مخالفت میں سرگرم ہوگئے۔

قاضی صاحب پر تھوکنے والوں میں  ان جیسے کچھ صحافی اور بھی ہیں  ایک نام عامر متین کا بھی ہے لیکن وہ اس قابل نہیں کہ تذکرہ کروں لیکن میں یہاں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا کا ذکر کروں گا۔حامد رضا مذہبی سیاستدان ہیں۔وہ اسلامی شعائر،بدگمانی،حسن ظن اور کینہ جیسے بدطینت جذبات سے باقی عوام سے زیادہ واقف ہوں گے اس لیے ان کا احتساب بھی اللہ کے حضور کڑاہوگا۔انہوں نے بھی قاضی صاحب کے خلاف سوشل میڈیا پوسٹ میں مغلظات بکی ہیں۔وہ اسلام کا پرچار کرتے ہیں لیکن اپنے اندرکے شیطان کو الزامات لگانے سے روک نہیں پائے اورانہوں نے بھی حامد میر صاحب کی طرح قاضی صاحب کے خلاف زبان درازی کے لیے ان کے عہدے سے اترنے کا انتظار کیا۔

 اس صحافتی  بددیانتی پر ایسے عناصر سے اتنا سوال ہے کہ کیا قاضی صاحب اس لیے جسٹس منیر ہیں کہ انہوں نے کسی آمر کوجوازدیا ہے؟یا اس لیے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذات کے لیے کوئی ”نظریہ ضرورت“ایجاد کیا ہے؟یا انہوں نے کسی کی محبت میں آئین دوبارہ تحریر کردیا  ہے؟ یا ایسے لوگوں کو محض اس لیے تکلیف ہے کہ انہوں نے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کی بالادستی کا ڈنکابجایاہے؟

 

 

 

 

 


Wednesday, October 9, 2024

Religious Education System

 

دینی مدارس:طلبا،مستقبل،مسائل اورچیلنجز

جمعیت طلبہ عربیہ کے منتظم اعلی محمد افضل گول میز کانفرنس کی میزبانی کرتے ہوئے


ملک  میں تعلیمی شعبے کا حال ویسے بھی اچھا نہیں ہے لیکن کسی کو اچھالگے یا برا کوئی اس کومتوازی نظام تعلیم سمجھے یا غیرضروری کہتا رہےیہ حقیقت تو ماننی ہی پڑے گی  کہ اس ملک میں مروجہ تعلیمی نظام جو اسکولوں اور کالجز پرمشتمل ہے ،کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمی اداروں کا بھی وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔اس وقت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں کوئی پینتیس ہزار مدارس موجود ہیں جن میں سے نصف کے قریب وفاقی وزارت تعلیم کے ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجئس ایجوکیشن کے ساتھ باقاعدہ رجسٹرڈہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں اس وقت چالیس لاکھ کے قریب طلبا زیر تعلیم ہیں۔

یہ چالیس لاکھ بھی ویسے ہی پاکستانی بچے اور طالب علم ہیں جیسے ہمارے ارد گرد سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں میں زیرتعلیم ہیں۔بچے دینی مدارس یا مذہبی تعلیم کیوں حاصل کرتے ہیں اس کی وجہ صرف اور صرف غربت یا والدین کا سوشواکنامک اسٹیٹس ہے یا والدین کی اپنے بچوں کے لیے دینی تعلیم ترجیح ہے یا یہ سب کچھ وہ ثواب اورآخرت کی تیاری کے پیش نظر اختیار کرتے ہیں یہ باتیں قابل بحث ہوسکتی ہیں اور کسی کو اس سوچ یا نظریے سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے لیکن ان تمام حالات کے درمیان اس حقیقت کو نظراندازکرنا ممکن ہی نہیں ہے کہ ایسے طالب علم چالیس لاکھ کی تعداد میں ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور پھر ان کو بھی مفید شہری بنانااور ان کا مستقبل بہتر بنانا بھی اسی طرح ریاست کے فرائض میں شامل ہے جس طرح روایتی تعلیمی اداروں کے گریجوایٹس کا ہے۔

اس کو ریاست کی عدم توجہی کہیں یا مجرمانہ سوچ اور غفلت کہ اس نے دینی تعلیم کے اداروں کے لیے اس سسٹم میں کوئی خاص جگہ نہیں رکھی تو دوسری طرف دینی مدارس چلانے والوں نے بھی حکومتوں اور ریاست کو دینی تعلیم کا دشمن گرداننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور نتیجہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے تاریک مستقبل کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔دینی تعلیم حاصل کرنے والے چاہتے کیا ہیں ؟ یہ سوال بڑا اہم ہے لیکن اس کا جواب سادہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح باقی تعلیمی اداروں سے پڑھنے والوں کو مقابلے کی اجازت ہے ان کا بھی یہی حق تسلیم کرکے ان کو بھی نوکریوں کےلیے امیدوار مان لیا جائے۔


جمعیت طلبہ عربیہ دینی مدارس کے طلبا کی نمائندہ تنظیم ہے اوراس تنظیم نے دینی مدارس کے طلبا کے درمیان اتحاد قائم کرکے ان کو درپیش مسائل اجاگر کرنے کی مہم کا آغازکررکھا ہے ۔انہی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے جمعیت طلبہ عربیہ نے منصورہ لاہورمیں ایک گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا ۔  منتظم اعلی محمد افضل کی طرف سے بلائی گئی اس گول میزکانفرنس میں وفاق المدارس اور تنظیم المدارس کے نمائندوں نے شرکت کی، دینی مدارس اور طلبا کو درپیش مسائل پر خوب گفتگو کی گئی ۔

اس کانفرنس کے شرکا کے خیالات جان کرمجھے یوں لگا جیسے دینی مدارس کی ترقی اور معاشرے میں ان کا جائز حصہ دلانے کی کوششیں دم توڑ چکی ہیں۔ دینی مدارس میں طلبا جو تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ درس نظامی کہلاتی ہے ۔سات یا آٹھ برسوں پر محیط یہ عربی اور اسلامیات کی سمجھ بوجھ اور فقہی ،شرعی مسائل پر دسترس حاصل کرنے کی ڈگری ہوتی ہے ۔جمود کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ مدارس کی سند شہادۃ العالمیہ کو انیس سو بیاسی میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ایم اے عربی اور اسلامیات کے مساوی قراردیا تھا ۔اس کے بعد ملک میں کئی نظام بدلے۔ تعلیمی نظام میں جوہری تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔میٹرک کے بعد ہی اسپیشلائزیشن کا آغازہونے لگا۔ ایم اے بی ایس میں بدل گیا لیکن دینی مدارس کی باقی اسناد کو تسلیم کرانے کے لیے کسی نے کام کیا اور نہ سرکار کو خیال آیا۔ آج دینی مدارس کے طلبا چاہتے ہیں کہ ان کی ڈگری کو بھی بی ایس کے ہم پلہ قراردیاجائے تاکہ وہ مروجہ نوکریوں میں اپلائی کرسکیں ۔

ایک اہم مسئلہ ایچ ای سی اور تعلیمی بورڈز سے دینی مدارس کی اسناد کو ایف اے بی اے یا ایم کے ہم پلہ قراردلوانے کا عمل بہت ہی طویل اور امتیازی سلوک کا شکار ہے تو اگر حکومت قراردے چکی ہے کہ درس نظامی کی ڈگری ایم اے عربی اور اسلامیات کے ہم پلہ ہوگی تو پھر اس پر سرکاری مہر لگانے میں اتنی مشکلات کیوں ہیں؟اس لیے ایچ ای سی کاایکولینس کا نظام آسان بنانا لازمی ہے۔

جب یہ مدارس کی ڈگری سرکاری طورپرتسلیم شدہ ہے تو پھر سرکاری ملازمتوں ،کالج یونیورسٹی کی سطح پر لیکچرشپ  اور مسلح افواج میں نوکریوں کےلیے بھی اس کو تسلیم شدہ بنایا جائے تاکہ ایسی ڈگریاں رکھنے والوں میں جو احساس محرومی پیدا ہوتا ہے اس کا خاتمہ ہو اور دینی طبقہ جو اپنے علاوہ سرکارکو طاغوت اور اپنامخالف سمجھتا ہے اس سوچ کا خاتمہ بھی ہوجائے۔

اب چونکہ ہمارے ہاں نیا تعلیمی نظام رائج ہوچکاہے جس کے تحت ایف اے کے بعد چار سالہ ڈگری بی ایس کہلاتی ہے اور یہی ڈگری ماسٹر کی ڈگری بن چکی ہے تو مدارس کی ڈگری کو بھی بی ایس کے مساوی مان لیا جائے کہ وہ بھی تو اسلامی تعلیم ہی حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے اپنے بورڈز سے امتحان دیتے ہیں اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ درس نظامی پڑھنے والے طلبا ایف اے بی اے اور ایم اے سے زیادہ مشکل نصاب پڑھتے ہیں۔ زیادہ وسیع نصاب پڑھتے ہیں۔زیادہ گہرائی سے چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں زبان وبیان پر عبور ان کا کہیں زیادہ ہے تو پھر ان کو معاشرے میں مروجہ نظام سے دوررکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

یہ مسائل جینون ہیں لیکن ایک بات اور بھی اہم ہے کہ دینی ادارے چلانے والے بھی قصوروارہیں کہ انہوں نے خود کو جدید نہ بنانے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ اپنے آپ  کو زمانے کے ساتھ بلکہ آگے چلانے کے لیے منہاج یونیوسٹی کی مثال سب دینی مدارس کے لیے مشعل راہ ہے۔سب دینی مدارس کے منتظمین کو مطالعہ کرنا چاہئے کہ کس طرح منہاج القرآن ایک شریعہ کالج یا دینی مدرسے سے ایچ ای سی سے منظورشدہ عظیم یونیورسٹی میں بدل گیا اگر مہناج القرآن ترقی کرسکتا ہے تو باقی دینی مدارس بھی کرسکتےہیں۔

جمعیت طلبہ عربیہ کی دینی مدارس کے مسائل کو اجاگرکرنے مہم قابل ستائش ہے یہ اہم موقع ہے کہ دینی مدارس کے منتظمین اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کرخود کو منوانے کے لیے متحد ہوجائیں۔


Monday, September 2, 2024

Himmat Card

پنجاب حکومت کاہمت کارڈ

محکمہ سماجی بہبودکی ہمت کی کہانی 

تحریر:رانا طارق ،سکاٹ لینڈ

سیاستدان عوامی ووٹ سے  ایک سیاسی منشور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلۓ اقتدار میں آتے ہیں۔انکا بنیادی ہدف عوامی کی خدمت، فلاح ، تعلیم ، حفاظت، صحت اور سماج کی مجموعی ترقی ہوتا ہے۔ جس کو حاصل کرکے نہ صرف آئیندہ اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرتے ہیں بلکہ اقوام عالم میں اپنے ملک  کا قد اور رتبہ بھی بلند کرنے کا سبب بنتے ہیں۔  

پاکستان مسلم لیک ن فروری دوہزار چوبیس  کے عام انتخابات کے بعد ایک دفعہ پھر اقتدار میں آئ اور محترمہ مریم نواز اپنے سماجی انقلاب کے ایجینڈے کے ساتھ سیاسی پنڈتوں کی تمام تر پیشینگوئیوں اور پروپیگنڈے کے برعکس وزارت اعلیٰ کے منصب پر براجمان ہو گئیں۔ انہوں نے آتے ہی دن رات ایک کرکے اپنے اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلۓ اپنی ٹیم کا انتخاب کرنا شروع کیا۔ اپنے ٹیم کیلۓ انہوں نوجوان ، باہمت، ایماندار اور مقصد کے حصول کیلۓ متحرک ٹیم کا انتخاب کیا۔

محکمہ سماجی بہبود و بیت المال   غریب، مجبور اور بے بس عوامی طبقات کو بہترین اور تیز ترین حکومتی خدمات پہنچانے  کا ذمہ دار ہے اور یہ ہی وہ حکومتی بازو ہے جو اپنی بہترین کارگردگی کی بدولت حکومت اور حکمرانوں کا بہترین خاکہ عوام کے دل و دماغ میں نقش کر سکتا ہے۔ محترمہ مریم نواز نے اس محکمے کیلۓ وزیر کے طور پر سہیل شوکت بٹ اور سیکرٹری کیلۓ اقبال حسین جیسے بے داغ کردار کے لیڈروں کا انتخاب کیا۔ اقبال حسین اس پہلے بھی شہباز شریف کی سابقہ پنجاب حکومت میں ایک متحرک ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ کے طور پر اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔


اقبال حسین،صوبائی سیکریٹری

اس تعیناتی سے پہلے سیکریٹری داخلہ گلگت بلتستان اور سی۔ ای۔ اور پنجاب پبلک پرائیویٹ پارٹنر شب خدمات انجام دے گر حکومت کی گڈبکس میں اپنا نام رکھتے ہیں۔

وزیراعلی کی ہدایات پر انہوں نے  محکمہ کے وزیر اور اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر سماجی خدمات کو عوام کی دہلیز تک پہجانے کیلۓ بہت سارے پروگرامز کا نہ صرف خاکہ بنایا بلکہ انکو سرانجام دینے کی حکمت عملی بھی ترتیب دی۔ ان پروگرامز میں سب سے اوپر ہمت کارڈ، تاریخ کی سب سے پہلی سماجی بہبود کی پالیسی، خصوصی افراد کی تکنیکی مہارت کی ٹریننگ کا ٹیوٹاکے ساتھ معاہدہ، ہیومن ریسورس کیلۓ سٹریٹیجک پالیسی کا قیام و منظوری ، بیواؤں اور یتیموں کیلۓ نگہبان کارڈ ، عورتوں پر مظالم کے خلاف ملتان سینٹر ماڈل جیسے تین اور مراکز کا قیام،معذور افراد کی بہبود کیلۓ پرائیویٹ سیکٹرکے ساتھ تعاون کا معاہدہ، وزیراعلی کے اجتماعی شادیوں کے پروگرام کا اجرا، پنجاب بیت المال کی سالانہ گرانٹ کو ڈھائی سو ملین روپے سے بڑھا کر پانچ سو ملین تک کروانا، صوبائ بہبود ڈسپلے سینٹر لاہور کا قیام   جہاں خصوصی افراد کی بنائ اشیأ کو نمایاں طور پر دکھایا جا سکے۔ اور انکے علاوہ بہت سارے دوسرے شاندار منصوبے۔

جب وزیراعلی کو  سیکٹری کی جانب سے ہمت کارڈ منصوبے کے خدو خال کی پریزینٹیشن دی گئی تو وزیراعلی نے فی الفور اس کو عملی جامعہ پہنانے کیلۓ 2658 ملین روپے کی خطیر رقم کے اجرا کی نہ صرف منظوری دی بلکہ اس کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کام بھی اقبال حسین کو سونپ دیا۔اس طرح یہ پنجاب حکومت کی ہمت،لگن ،وژن اورمحکمہ سماجی بہبود کی ٹیم کی محنت کی بدولت آج معاشرے کا یہ طبقہ بھی زندگی کی دوڑ میں سب کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہے۔

سیکٹری سماجی بہبود و بیت المال نے پورے صوبے میں تحصیل لیول تک کے اسسٹینٹ ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر و بیت المال کو دن رات کام پہ لگا کر ان مستحق افراد کا گھر گھر جا کر  نہ صرف ڈیٹا اکٹھا کروایا بلکہ اسکی تصدیق بھی کروائ۔ اس وقت پنجاب بھر میں تین لاکھ کے قریب رجسٹرڈ معزور افراد ہیں اور ان میں سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب ایسے افراد ہیں جو کام کرنے کے اہل نہیں۔

انکی  اور انکی ٹیم کی اس انتھک شبانہ روز محنت کے نتیجے میں ہمت کارڈ کا نہ صرف ڈیزائن حتمی ہوا بلکہ ان افراد کو ستمبر سے ہر سہ ماہی دس ہزار پانچ سو روپے کی امداد پہنچنا شروع ہو جائیگی۔ ہو سکتا ہے یہ رقم ان معذور اور محروم افراد کے تمام دکھوں کا مداوا نہ کر سکے مگر انکو سماج میں پیچھے رہنے کی ذہنی اذیت سے نجات دلا کر اہم ہونے کا احساس ضرو اجا گر کرے گی۔ ان کو بھی لگے گا کہ حکومتیں اور حکومتی افسر شاہی صرف باتیں ہی نہیں کرتی بلکہ واقعی عوامی فلاح و بہبود میں سنجیدہ ہے۔

بہترپرفارمنس اور اچھی گورننس کےلیےایک اچھی ٹیم کا انتخاب ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ اپنی سیاسی منشور کے حصول میں انکی شبانہ روز محنت کی عوامی سطح پر پذیرائی بھی ضروری ہوتی ہے۔ گو کہ اقبال حسین اب اپنی گریڈ اکیس میں ترقی کے نیشنل مینیجمینٹ کورس میں ہیں مگر انکے یہ تمام کارنامے عوامی سطح پر پزیرائ کے حقدار ہیں۔ تاکہ عوام جو سماجی رابطے  کے پلیٹ فارمز پر جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈوں سے حکومت اور افسر شاہی سے بیزار کر دئیے گۓ ہیں انکا حکومت اور اقبال حسین جیسے قابل افسران پر اعتماد بحال ہواور سماج کی بہبود اور ترقی کا تسلسل جاری رہ سکے۔


Sunday, June 16, 2024

THE LAST SERMON OF PROPHET MUHAMMAD ﷺ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ اور ہم  



جب بھی۔ جس جگہ،جس مجلس اور جس موقع پر بھی حج کی بات ہوتی ہے تو ہمارے پیارے نبی اخرلزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ حج ہمارے لیے مشعل راہ بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔پورے دین اسلام کانچوڑ یہی خطبہ حج ہےیہی وہ خطبہ ہے جس میں حضورنے چودہ سو سال پہلے انسانی حقوق کا مکمل چارٹرپیش کردیا،انسان کی جان ومال کے تحفظ کا چارٹردے دیا۔خواتین کے حقوق کا چارٹردے دیا اورانسانی مساوات اور برابری کا چارٹردے دیا۔

یہی وہ دن تھا جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا دین اسلام مکمل ہونے کا اعلان کیا۔چودہ سوسال سے ہر سال بیت اللہ کا حج ہوتا ہے لاکھوں فرزندان اسلام اسی میدان عرفات میں جمع ہوتےہیں اورخطبہ حج سنتے ہیں جس جگہ حضور اکرم صلہ اللہ علیہ وسلم نے اپنا آخری خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔حج کے موقع پر خطبے کا سلسلہ تو چودہ سو سال سے جاری ہے تاکہ مسلمانوں کے اعمال اورعقیدے کی اصلاح ہوسکےکیا کبھی سوچا ہے کہ ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنےآخری خطبے میں کیا کچھ کرنے کا حکم دیاتھا اور ہم کیا کررہےہیں۔

آپ نے تو فرمایا تھا کہ  سب انسان برابرہیں۔کسی کو کسی بھی بنیادپربرتری حاصل نہیں لیکن ہم ذات پات میں بٹ گئے۔طاقتوراور کمزورکی دنیا الگ کرتے چلے گئے۔آپ نے تو فرمایا تھا کہ ایسا نہ کرنا کہ دنیا کے مال کا بوجھ لے کر قیامت کے میدان میں آجائیں لیکن ہم نےتو مال جمع کرنے میں حلال اورحرام کے فرق کو ہی ختم کردیا۔آپ نے تو فرمایاتھا کہ تمہاری جھوٹی شان وشوکت آج ختم کردی لیکن ہم نے جھوٹی شان اور کھوکھلی اناوں کو ہی اپنی عزت کاسامان کرلیا۔آپ نے تو فرمایا تھا کہ تمہارا خون ایک دوسرے پرحرام کردیا گیاہے لیکن ہم نے قتل وغارت ،لڑائی جھگڑوں دھونس دھاندلی اور کمزورکو دبانے کو ہی زندگی میں آگے بڑھنے کا نصاب بنالیا۔ آپ نے توفرمایا تھا کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ایک دوسرے کی مددکرنا لیکن ہم ایسے بھائی ہیں کہ ہمارے سامنے فلسطین کے بچے ذبح کیے جارہے ہیں اورہم اپنی اپنی موج مستیوں میں مصروف ہیں۔

آپ نے تو فرمایاتھا کہ اپنے غلاموں اور ملازموں کو وہی کھلانا جو تم خود کھاتے ہولیکن ہم بڑے بڑے ہوٹلوں میں خود اچھا کھاتے ہیں اوراپنے گھریلوملازموں کو ایک کونے میں بٹھادیتےہیں۔آپ نے تو فرمایاتھا کہ میں نے سارے انتقام اپنے پاوں تلے روند دیے ہیں لیکن ہم جب تک اپنے مخالفین سے انتقام نہ لےلیں ہمیں ٹھنڈ ہی نہیں پڑتی۔آپ نے توفرمایا تھا کہ دورجاہلیت کے سارے سود ختم کردیے گئے ہیں لیکن ہم اپنےاسلامی ملک کی ساری معیشت سود پر چلائےچلے جارہےہیں۔

آپ نے تو فرمایا تھا کہ کسی کے جرم کابدلہ دوسرے سے نہیں لیا جائے گا لیکن ہم نے یہاں ملزم کے بدلے اس کے گھروالوں، بیٹے کے بدلے باپ اوربھائی کے بدلے بھائی یہاں تک کہ ماوں اوربہنوں کو گھروں سے اٹھانے کو قانون ہی بنالیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ مکمل ضابطہ حیات ہے ہماری کامیابی کانصاب ہے۔پورے معاشرے کی بہتری اور ترقی کا راستہ ہے۔لیکن اگرہم ان باتوں پر عمل نہیں کرتے تو پھر وہی ہوگا جو آپ نےفرمایاتھا کہ ایسا نہ ہوکہ آپ دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی گزارکر دنیا کی بداعمالیوں کا بوجھ سرپر رکھ کر اللہ کے حضور پیش ہوجاواگر ایسا ہواتو قیامت کے دن تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکے گا اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر مکمل عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Tags

#Hajj #Hajj2024

#Last Surman #Khutba hijjatul widah 

Wednesday, April 24, 2024

Amir Muqam and PMLn

 

ن کا مقام 

امیر مقام پاکستان کی سیاست کا ایسا نام ہیں کہ جس بھی پارٹی میں رہے ان کے تعلقات ہمیشہ’’ ٹاپ لیڈرشپ‘‘کے ساتھ رہے۔ان پرعہدوں اور نوازشات کی بارش ہی ہوتی رہی ۔اب ان کے پاس کیا ’’گیدڑسنگھی ‘‘ ہے یہ معلوم نہیں ۔جب تک پرویز مشرف زندہ اور طاقت میں رہے اس وقت تک تو ان کا ذاتی پستول امیر مقام کے پاس کسی گیدڑسنگھی سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔سوات کے امیرمقام کا سیاست میں جنم پرویز مشرف کے بنائے لوکل گورنمٹ سسٹم میں 2001میں ہواجب وہ پہلی بار یونین کونسل کے ناظم بن گئے۔ایک سال بعد ہی پرویزمشرف نے عام انتخابات کروائے تو انہوں نے سوات سے متحدہ مجلس عمل (یہ قاضی حسین احمد کی قیادت میں پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا جس میں مولانا فضل الرحمان اورجماعت اسلامی دوبڑی جماعتیں شامل تھیں)کے ٹکٹ پرپراپنا قومی اسمبلی کا پہلا الیکشن لڑااور اے این پی کے سفیر خان کا شکست دے کرقومی اسمبلی پہنچ گئے۔

یہاں سے امیر مقام کی اصل سیاست کا آغازہوتا ہے ۔وہ جیت کر تو ایم ایم اے کے ٹکٹ پر اسمبلی آئے تھے اوریہ اتحاد اس وقت مسلم لیگ ق کا مخالف تھا۔پرویز مشرف کی چھتری مسلم لیگ ق پر تھی اور ایم ایم اے کے رہنما مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اورصوبہ خیبرپختونخوا میں بھی متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امیر مقام اپنی پارٹی میں رہ کر ایم ایم اے سے وفاداری کرتے اور اپوزیشن کی سیاست کرتے لیکن وہ اپوزیشن کی سیاست کے
لیے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔انہوں نے اس وقت کے ڈکٹیٹرپرویزمشرف سے قربت تلاش کرنا شروع کردی۔بہت ہی جلد انہوں نے خود کو پرویز مشرف کے اتنا قریب کرلیا کہ پرویز مشرف نے امیر مقام کو اپنا ذاتی اور بیش قیمتی گلوک پستول تحفے میں دے دیا۔امیر مقام نے اس کے بعد اپنی جماعت متحدہ مجلس عمل کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔وہ عام زبان میں لوٹے بن گئے اورق لیگ میں شامل ہوگئے ۔حیران کن بات یہ بھی تھی کہ ان کی جماعت متحدہ مجلس عمل اور اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمان نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ۔وہ ق لیگ میں شامل ہوئے اور پرویز مشرف نے ان کو پانی و بجلی کا وزیربنادیا۔2008کا الیکشن انہوں نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر لڑا اور پھر جیت گئے ۔
وہ مسلم لیگ ق میں رکن قومی اسمبلی رہے لیکن بس ایسے ہی رہے کہ ان کی مزید آگے بڑھنے کی جدوجہد جاری رہی۔مسلم لیگ ق کے بعد انہوں نے اپنے محسن پرویزمشرف کی سب سے بڑی مخالف اور دشمن نمبر ون نوازشریف کی پارٹی کو اپنی اگلی منزل کے لیے منتخب کرلیا۔ایک طرف ڈکٹیٹر سے پستول کا تحفہ پانے اور مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت کو ان کا ساتھ نہ چھوڑنے کا حلف دینے والے امیر مقام تھے تو دوسری طرف پرویز مشرف کے ہاتھو ں اپنا تختہ الٹوانے اور اپنی پارٹی سے بے وفائی کرنے والے چودھری شجاعت سے ناراض نوازشریف تھے۔لیکن امیر مقام کی کشش اس قدر زیادہ تھی کہ دونوں نے اپنا ماضی بھولنے کا فیصلہ کرلیا۔امیر مقام کونوازشریف نے نہ صرف اپنی پارٹی میں شامل کیا بلکہ انہیں پارٹی کا سینئرنائب صدر کا عہدہ بھی ساتھ ہی پیش کردیا۔
نوازشریف نے امیر مقام کو صرف اپنی پارٹی میں شامل ہی نہیں کیا بلکہ انہیں 2013کا الیکشن لڑنے کے لیے ریکارڈ چار ٹکٹ پیش کردیے۔ایک ایسے وقت میں جب نوازشریف کی پارٹی کا حکومت میں آنا طے شدہ تھا اس وقت بھی پارٹی کے چار ٹکٹ صرف ایک امیر مقام کو دے دیے گئے اور امیر مقام نے چار سیٹوں سے الیکشن لڑا اورچاروں ہی سیٹیں ہار گئے۔انہوں نے پہلی بار سوات کے ساتھ ساتھ پشاور سے بھی الیکشن لڑالیکن ان کو ہر جگہ سے ہی شکست ہوگئی ۔الیکشن میں ن لیگ کے اور بھی بہت سے عہدیداروں کو شکست ہوئی لیکن نوازشریف نے امیر مقام کا اپنی حکومت میں خاص خیال رکھا۔ان کو سوات میں ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے دیے۔سرکاری عہدے بھی دیے رکھے۔
خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ ن ایک بڑی پارٹی ہوتی تھی اور خاص طورپر ہزارابیلٹ تو پورا ہی ن لیگ کا تھا ۔ امیر مقام کے آنے سے مسلم لیگ ن کے خیبرپختونخوا میں اختلافات شروع ہوگئے ۔ نوازشریف پورے صوبے کو صرف امیرمقام کی نظر سے دیکھنے لگے تو ان کے دیرینہ ساتھی جو ان کی مشکلات میں ان کے ساتھ رہے وہ اس ’’امیرانہ ‘‘محبت سے اکتانے لگے ۔صوبے میں پارٹی سکڑتی گئی ۔پہلے پشاور اور باقی اضلاع میں پارٹی کا خاتمہ ہوا اور پھر ن لیگ کے مضبوط گڑھ ہزارا سے بھی ن لیگ کی چھٹی ہوتی گئی ۔امیر مقام نے 2018میں بھی سوات سے الیکشن لڑااور پھر ہار گئے ۔لیکن نوازشریف کی امیر مقام سے محبت کا عالم یہ نکلا کہ انہوںنے دس سالوں سے اپنا الیکشن تک نہ جیتنے والے امیر مقام کو صوبہ خیبرپختونخوا کا پارٹی صدر بنادیا۔امیر مقام کے صدر بننے سے ن لیگ میں صوبائی سطح پر شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ماضی میں ن لیگ کی پہچان سمجھے جانے والے سرانجام خان، پیر صابر شاہ،مہتاب عباسی اور اسی طرح کے دوسرے رہنما پس منظر میں چلے گئے۔کچھ غیرفعام ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے،کچھ پی ٹی آئی میں چلے گئے اور کچھ ناراض ہوکر الگ ہوگئے۔پورے صوبے میں پارٹی ٹوٹتی رہی لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت نے سوائے امیر مقام کے اور کسی سے تعلق نہ رکھا۔ن لیگ کو جب بھی خیبرپختونخوا میں کوئی جلسہ کرنا ہوتا تو امیر مقام نوازشریف یا مریم یہاں تک کہ شہبازشریف کا جلسہ بھی سوات میں کروادیتے اس سے پارٹی خوش ہوجاتی۔امیر مقام کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب عدم اعتما د کے بعد شہبازشریف وزیراعظم بنے تو اس وقت بھی انہوں نے امیرمقام کو اپنا معاون خصوصی بنالیا تھا۔
کسی بھی شخصیت کا کسی پارٹی میں ترقی کرجانا۔اعلی عہدے لے لینایہاں تک کہ قیادت کے انتہائی قریب ہوجانا نہ کوئی بری بات ہے اور نہ ہی اچنبھے کی لیکن مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں جب ایک کو نوازنے کے چکر میں باقی کارکنوں کو محروم کردیا جاتا ہے۔خیبرپختونخوا میں یہاں ن لیگ ختم ہورہی تھی تو وہیں ایک نام اختیار ولی خان اس وقت سامنے آیا جب پی ٹی آئی کے دورمیں نوشہرہ میں ضمنی الیکشن ہوا۔صوبے میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور مرکز میں بھی اور نوشہرہ سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک کا آبائی حلقہ بھی ہے ۔اس حلقے سے الیکشن لڑنا ایک مشکل کام تھا لیکن اختیار ولی خان نے خود کو الیکشن کے لیے پیش کیا۔حالانکہ اگر امیر مقام چاہتے تو وہ خود یا اپنے بھائی بیٹے کے لیے یہ ٹکٹ آسانی سے لے سکتے تھے لیکن انہوں نے اس الیکشن میں اترنے سے خود کو روک لیا ۔یہ الیکشن اختیار ولی نے لڑا اورپی ٹی آئی کی حکومت کے باوجود وہ جیت گئے ۔اس جیت نے اختیار ولی کو پورے ملک میں شہرت کی بلندی پر پہنچادیا لیکن ان کی اپنی پارٹی میں ان کی وہ پذیرائی شاید نہیں ہوسکی ۔
یہ دوربھی گزرگیا ۔موجودہ الیکشن میں بھی خیبرپختونخوا میں الیکشن لڑانے اور پارٹی کی قیادت امیرمقام کے ہی پاس تھی ۔نوازشریف کو مانسہرہ سے الیکشن لڑنے کی پیشکش بھی بطور پارٹی صوبائی صدر امیر مقام نے ہی کی تھی ۔نوازشریف مانسہر سے شکست کھاگئے لیکن مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پرپہلی بار امیر مقام جیت گئے ۔اس جیت کے بعد امیر مقام کو فوری وزیربنادیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ ن لیگ میں آوازیں اس وقت اٹھنا شروع ہوگئیں جب امیر مقام کے بھائی کو خیبرپختونخوااسمبلی میں اپوزیشن لیڈرنامزدکردیاگیا۔یہاں تک بھی شاید لوگ برداشت کرجاتے لیکن کمال یہ ہوا کہ سینیٹ کے الیکشن آئے تو پورے کے پی میں شاید ایک ہی نشست مسلم لیگ ن جیت سکتی ہے اس ایک اکلوتی نشست پر بھی امیرمقام کے بیٹے نیازامیرکا انتخاب کیاگیا۔جب یہ سینیٹ کا ٹکٹ کا بھی امیر مقام کو پیارا ہواتو پھر صوبے میں ن لیگ کی لڑائی کھل کرسامنے آگئی ۔ اس فیصلے پراختیار ولی خان
اختیار ولی خان

نے سوشل میڈیا پر کھل کر تنقید کی ۔اختیار ولی خان نے اپنی پوسٹ میں یہاں تک لکھا کہ ’’میں 34سال سے ن لیگ سے وابستہ ہوں۔ میں سمجھتا تھا کہ آپ کی پارٹی سے وفاداری ہی سب سے بڑی سفارش ہوتی ہے لیکن آج میں ہر پارٹی کے کارکن کومشورہ دیتا ہوں کہ سیاست جس مرضی پارٹی میں کریں لیکن پارٹی میں اپنی سفارش کا بہتر بندوبست کرکے رکھیں ورنہ عمر گزرجائے گی اور قیادت کو آپ کے ہونے یا نہ ہونے کا احساس بھی نہیں ہوگا‘‘ مجھے اختیار ولی خان کے ان الفاظ نے بہت ہی بے چین کیا۔یہ کالم لکھنے کی وجہ بھی یہی الفاظ ہیں۔ہماری تمام ہی سیاسی جماعتوں کا اسی طرح براحال ہے۔ کارکنوں کی قربانیاں اور وفاداریاں نظر انداز کرکے پارٹی کی بجائے صرف قیادت کوفائدہ پہنچانے والے لوگ آگے لائے جاتے ہیں۔امیر مقام جیسے لوگوں کو پارٹیوں میں اعلیٰ ’’مقام‘‘مل جاتا ہے اور عام کارکن اسی طرح دکھی دل کے ساتھ کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔پارٹی کی سینئرلیڈرشپ بھلے امیرمقام کو بھی جائز مقام دے لیکن باقی لوگوں کے ساتھ بھی منصفانہ سلوک کرلے تو ملک میں جمہوریت پھلتی رہے اورسیاسی پارٹیوں میں بھی کچھ جمہوریت کا عمل دخل باقی رہے۔

Sunday, March 31, 2024

Choking lungs of ‘Punjab’

 

Delhi and Lahore — the smoggiest cities of  ’em all


 Governments of both — India and Pakistan — need to clear the air about the steps being taken to tackle the harmful effects of ‘toxic’ air that the residents of both countries are breathing

By

Jabbar Chaudhary in Lahore

Nikita Sharma in Chandigarh 


Pic Credit Dunya Tv

Without rain for two months, Lahore saw its air quality index (AQI) touching the dangerous level of 450 tiny particulate matter (PM2.5) on December 16, 2023. It was 30 times higher than the World Health Organization’s recommended maximum average daily exposure and considered hazardous. As a result, the Punjab Government had to declare a ‘smog emergency’ in Lahore and nearby districts. Schools were shut, markets closed and face masks were made mandatory. For the first time in the history of Pakistan, the government made arrangements to induce artificial rain in Lahore to provide temporary relief from the hazardous effects of poor air quality.

Artificial rain was induced in an attempt to lowering pollution levels in Lahore. The Punjab Government used cloud seeding to create rain in 10 locations around the city using a small Cessna plane with UAE’s cooperation. Citizens experienced shower-like rain in different locations. Environment Minister in Punjab, Bilal Afzal, claimed that cloud seeding and artificial rain was introduced for the first time and it was a success. He, however, admitted that the rainfall was minimal and scanty. He felt elated that due to this the air quality of Lahore improved significantly and the AQI dropped to 150 PM. However, the minister also said that the benefits of this rain were short-lived as the pollution was back to square one after two to three days.

Hazardous air quality is not limited to Lahore. India’s capital city — Delhi — ranks ahead of it. Both cities top the list of most-polluted cities of the world.

 

This “toxic” air that we are breathing is now transcending borders and affecting many lives. Smog is a common cause for concern, as nationals of both -- India and Pakistan -- are severely affected. The citizens of both countries are breathing the same toxic air, which is causing severe health issues. The situation is only getting worse with each passing year.

In response to the alarming and dangerous situation, the Delhi Government in India also reportedly considered the implementation of artificial rain to counter smog, but it could not bring it to fruition. The Aam Aadmi Party government in India’s national capital also derived an odd-even formula for vehicles to ply in order to reduce pollution level, but there was no data to prove the efficacy of the experiment as well.
IIT Kanpur, a premier institute in India, undertook an experiment last year, wherein a Cessna aircraft was flown from its flight laboratory with cloud-seeding attachments. "These attachments were procured from a manufacturer in the US and the modifications in the aircraft were approved both by the manufacturers of Cessna and DGCA. The test flight spread the agents using a flare as is standard practice," the institute had revealed in the release.

The Global Alliance on Health and Pollution estimates that every year, air pollution steals 9 million lives, 2% of GDP and 7% of healthcare costs. It also reported that 128,000 Pakistanis die annually due to air pollution-related illnesses.

An air quality life index study suggests that since 1998, average annual particulate pollution has increased by 20 per cent, cutting 0.9 years off the lives of the average Pakistani resident over these years. The most-polluted areas of the country are in northeast Punjab and northern Sindh, where residents would gain over five years of life if particulate pollution could be permanently reduced, according to WHO guidelines.

Punjab, be it in the Indian side or that in Pakistan, starts experiencing periods of low visibility from October onwards and this continues till February. This is commonly referred to as smog (combined from smoke and fog). The intensity, duration and spatial extent of these events have increased over the last few years. Smog causes severe health problems such as burning and irritation of the eyes and other respiratory problems. Prolonged or heavy exposure to hazardous air causes various complications such as asthma, lung damage, bronchial infections, stroke and shortened life expectancy.

Dr Atif Kazmi, a senior consultant dermatologist at Lahore University Teaching Hospital (UOL), says smog causes serious damage to health. He advised citizens to avoid coming in contact with smog, as it can cause breathing difficulties and infections. He said wearing face masks and staying inside are the two easiest ways to avoid rushing to hospitals with respiratory issues, eye infections and skin diseases.

Considering growing concerns regarding smog and its serious effects on health, the Lahore High Court took cognizance of the fact and constituted a ‘Smog Commission’. After considerable discussions and thorough research, this commission submitted its reports to the
High Court, which identified an interesting fact. The report stated: The Indo-Gangetic Plains, composed of the Indus (areas in Pakistan and parts of Punjab and Haryana in India) and the Gangetic Plains of Uttar Pradesh, Bihar and West Bengal in India, Nepal and Bangladesh (Figure G.6), have been identified as one of the most-polluted regions due to high aerosol concentration and a related episode of haze, fog and smog.”

 



The same report suggests and experts also believe that the main cause for smog and air pollution were vehicular and industrial emissions, dust clouds, fossil fuel-fired power plants and coal being burned by thousands of brick kilns spread across the province all contribute to the problem. A Food and Agriculture Organization’s source appropriation study in 2020 singles out power producers, industry and the transport sector in particular as culprits. Waste burning is considered another source of smog. It includes burning of solid wastes, rice stubble and sugarcane fields. Various studies have linked smog to the burning of rice stubble in the Indian states of Punjab, Haryana, and Uttar Pradesh. During 2016 alone, around 32 Metric Tonnes of paddy stubble was estimated to have been burnt in the Indian state of Punjab. In Pakistan’s side of Punjab, too, the practice of burning stubble is very common among farmers before the wheat cultivation season.

Asif Mahmood, a senior journalist and special correspondent at Express Tribune, who reports on environmental issues, reveals that the government has no authentic research and data on smog. Only two stations are working in Lahore to monitor the air quality. However, the Punjab Government started uploading air quality data on its website daily after the High Court’s order. Mr Mahmood is also of the view that smog is a common and shared problem between India and Pakistan and it should be dealt seriously. He said multiple forums are available between the two countries so the issue of smog can be discussed to avoid blame game and stubble-burning allegations against each other.

On the other hand, Gopal Singh, a political activist and a farmer from Amritsar in Punjab, India, said a strict ban has been imposed on stubble burning, but some farmers still violate the law and burn the paddy crop remains to clear the fields for the next crop — wheat. As a result, people start experiencing breathing issues due to the polluted air and visits to hospitals become frequent.

Ahbab Singh Grewal, spokesperson of the Aam Aadmi Party government in Punjab, India, said the share of stubble burning in smog is 17 per cent. He said his government was not only encouraging a ban on stubble burning, but was also incentivising farmers to sell stubble to public sector powerhouses that are being run by the Punjab Government. “We have stated a policy, wherein the AAP government is discouraging sowing rice crops in the state to save water and environment,” he said.

Smog is a serious threat to the region and most experts citing the recommendations of the Institute of Strategic Studies Islamabad believe that although air pollution in Pakistan is a complicated challenge, some concrete and solid steps must be taken to protect public health and the environment. Among the list of long-term actionable solutions given and proposed for the reduction of smog and improve air quality are — ban on substandard fuel, promotion of hybrid and electric vehicles and increasing public transport, production of renewable energy to get rid of fossil fuels, management of industrial pollution, monitoring of recycling, increasing tree plantation and incentivizing research and development in the field of smog and zero tolerance on stubble and waste burning.

Syed Mohammad Ali, a nonresident scholar at the Middle East institute, who also teaches at Georgetown and Johns Hopkins Universities, wrote an article in Foreign Policy magazine on Lahore air pollution, where he said: “In the absence of comprehensive and concerted efforts to combat air pollution, Lahore, once known as the ‘city of gardens’ is tragically choking on toxic air. Instead of looking forward to the welcomed reprieve of winter months, Lahore’s 13 million residents now must brace themselves for another bout of smog, which has acquired the status of a fifth season.”

With an alarming situation arising every year, especially during the winter months, it is imperative for the governments of both countries to sit down and work out a solution to this grave issue that stares at us. Governments of both — India and Pakistan — need to clear the air about the steps being taken to tackle the harmful effects of ‘toxic’ air that the residents of both countries are breathing. Otherwise the day’s not far when this will turn into a pandemic where residents of both countries will be seen making a beeline outside hospitals, gasping to get some fresh air!

Expert speaks

Rafay Alam, an activist and lawyer, says merely believing that stubble burning is the only major cause for smog would not be correct. He refers to an Urban Unit study that clearly says that vehicular and industrial emissions are two main contributors of smog in the region. He believes that no short-term solution was workable, hence the governments must understand the fact that environmental issues cannot be solved overnight by ad-hoc policies such as closing schools and businesses, spraying water on roads or cloud seeding, etc. He thinks that long-term planning and implementation of concrete strategies were the only way forward.

FACTFILE 

AQI zero-50: Good

AQI 51-100: Satisfactory

AQI 101-200: Moderate

AQI 201-300: Poor

AQI 301-400: Very poor

AQI 401-450: Severe

AQI above 450: Severe plus

Do your bit to reduce smog:

·         Drive less, instead pool a car

·         Avoid using substandard fuel

·         Promote hybrid or electric vehicles and encourage using public transport

·         Service your vehicles regularly

·         Avoid stubble burning

 Writers are East-West center Alumnus and part of Pak India Journalist Exchange programme 


Sunday, March 10, 2024

ASIF ALI ZARDARI NEW PRESIDENT OF PAKISTAN

 

 آصف علی زرداری دوسری مرتبہ منتخب پہلے صدر


پاکستان میں جمہوریت کمزور اور مختلف مسائل کا شکارضرور ہے اور اس جمہوریت کا سفر سست ہی سہی لیکن کسی نہ کسی صورت جاری بھی ہے۔ پاکستان میں عین جمہوری اور آئینی طریوے سے منتخب صدرکاحلف اسی جمہوری سفر میں ایک سنگ میل کہاجاسکتا ہے۔ہفتے والے منتخب ہونے والےصدرآصف علی زرداری نے آج (اتوار) حلف اٹھالیا ہے۔آصف علی زرداری دوسری بار اس عہدے پر پہنچنے والے پہلے شخص ہیں۔

 یہ وہی آصف علی زرداری ہیں جواس ملک میں گیارہ سال تک جیلوں میں قید رہے۔کیوں قید رکھا گیا اور پھر الزامات ثابت کیے بغیرچھوڑ کیوں دیا گیا یہ سوالات تاریخ کا حصہ ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان سے کچھ برآمد نہیں کیا جاسکا۔انہوں نے قانون کاجبر برداشت کیا لیکن کبھی شکایت نہ کی ۔یہ وہی زرداری ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کھپے کا نعرہ لگاکر اپنے کارکنوں کی درست سمت میں رہنمائی کی۔بے نظیر کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری ایک نئےسیاسی روپ میں سامنے آئے۔

یہ سیاسی روپ تھا ایک مفاہمت پر یقین رکھنے والے سیاسی رہنما کا۔مسائل کے حل کے لیے بات چیت پریقین رکھنے والے سیاسی رہنما کا۔دیواریں کھڑی کرنے کی بجائے دیواروں میں راستے بنانے والےسیاسی رہنما کا۔سیاسی حلیف ہی نہیں بلکہ سخت ترین سیاسی حریفوں کے ساتھ بات چیت کرنے والے سیاسی رہنماکا۔ناقابل یقین کو قابل یقین بنانے والے سیاسی رہنماکا۔حکومت سازی کے لیے جوڑتوڑکے ماہرسیاسی رہنما کا۔اپنے اسی سیاسی روپ کی وجہ سے وہ مفاہمت کے بادشاہ کہلائے۔جمہوری اندازمیں حکومتیں گرانے اوربنانےکے ماہر کہلائے۔یہ وہی زرداری ہیں جن کی پارٹی 2008میں اقتدارمیں آئی تو انہوں نے اپنی سخت ترین سیاسی مخالف ن لیگ کو شامل اقتدارکرلیا۔اورکابینہ کو ڈکٹیٹرپرویز مشرف سے حلف بھی دلوادیا۔یہ وہی مشرف تھے جنہوں نے ن لیگ کی حکومت کو گھر بھیجا اور ملک میں مارشل لا لگادیا تھا۔ن لیگ نے راہیں جداکیں تو ان چودھری برادارن کو ساتھ ملالیا جنہوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کوپھانسی کی سزالکھنے والا قلم خریدرکھا تھا۔اس پرویزالہی کو ڈپٹی وزیراعظم بنادیا جس پربےنظیربھٹو کی شہادت کا الزام تھا۔

وہ پہلی بار ایوان صدر میں بیٹھے تو پاکستان کے آئین میں متفقہ طورپراٹھارویں ترمیم کرکے صدرکے سارے اختیارات پارلیمنٹ کو سونپ دیے۔صوبہ سرحد کوخیبرپختونخواکا نیا نام دیا اور اس ملک کو متفقہ این ایف سی ایوارڈ ملا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیام ہواتوآئینی عہدوں پرتعیناتیوں کےنئے قوانین بنائے گئے۔انہوں نے میموگیٹ اسکینڈل بھگتا اور اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان کی وجہ سے خودساختہ جلاوطنی بھی بھگتی لیکن وہ ہربارمفاہمت کرکے واپس آئےیہ ان کی بڑی سیاسی کامیابی  ہے کہ  پندرہ سال سے مسلسل سندھ میں ان کی حکومت ہے اور وہ خود دوسری بار ایوان صدر کے مکین ہوئے ہیں۔

بہت سی اچھی باتیں یہاں انکے کریڈٹ پرہیں تو وہ کچھ کاموں کے لیے بدنام بھی ہیں۔ ان پر سیاست میں بے تحاشا پیسا چلانے کا الزام ہے۔ ہارس ٹریڈنگ سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان خریدنے کا الزام ہے۔کرپشن کے ایک گہرے تاثر کاالزام ہے۔وہ زرداری آج پاکستان کے منتخب صدر کا حلف اٹھاچکےہیں۔زرداری جب پہلی بار صدر بنے تھے تواس وقت ان کی اپنی حکومت تھی اور وزیراعظم ان کی اپنی پارٹی کا تھا لیکن اس بار حکومت مسلم لیگ ن کی ہے ۔ پیپلزپارٹی حکومت میں اس طرح شامل ہے کہ کابینہ کا حصہ فی الحال نہیں ہے لیکن ن لیگ کی حمایت اور اشتراک سے تمام آئینی عہدے لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ زرداری کا دور پہلے دور سے کتنا مختلف ہوگا یہ سوال کا جواب آنے والے حالات دیتے رہیں گے۔