Monday, December 9, 2024

Syrian civil war

کربلا سے شام تک 

تحریر عاطف فخر

سینئر صحافی 



شام کے بادشاہ بشارالاسد ملک سے فرارہوئے اور باغیوں نے دمشق پر قبضہ کر لیا۔۔۔شام میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کی جدید تاریخ کی سب سے خونریز جنگ لڑی گئی۔۔صرف اس جنگ میں تیس ہزار سے زائد بچے شہید ہوئے۔۔۔۔اس پراکسی جنگ میں سنی مسلمانوں کی طرف سے سعودی عرب اور ترکی پیش پیش تھے اورشیعہ مسلمانوں کی جانب سے ایران یہ جنگ لڑرہاتھاجبکہ روس بھی ایران کی مدد کے لئے براہ راست جنگ میں ملوث تھا ۔۔سنی ملکوں کے لئے امریکہ اسلحہ سپلائی کررہا تھا۔۔مسلمانوں نے اس جنگ میں ایک دوسرے کو اس بے دردی سے مارا کہ چنگیز خان کو بھی شرمادیا۔۔لاشوں کے مینار بنادیے۔۔۔۔دمشق اور الیپو جیسے تاریخی شہر کھنڈر بن گئے۔شام کی جنگ کے بعد مجھے لگتا تھا کہ ہر مسئلے کا حل ہے لیکن شیعہ سنی اختلاف کا کوئی حل نہیں مگر واضح ہوگیا۔۔دنیا کے ہر مسئلہ کا حل پیسے سے نکل آتا ہے۔سعودی آئل منی ہے نا۔پاکستان میں عام لوگوں کو اس کے بارے میں نہ ہونے کے برابر معلوم تھا۔۔گو شیعہ مسلمانوں کی جانب سے اکثر زینبیون بریگیڈز کے جنگجووں کوشام بھیجے جانے کی خبریں آتی تھی۔۔۔حالیہ فلسطین جنگ میں اسرائیل کی جنگی طاقت  نے ایران کو اس قابل نہ چھوڑا کہ شام میں پراکسی جنگ جاری رکھ پاتا۔۔۔۔دوسری جانب سعودی شہزادے محمد بن سلیمان کا ایران کی حمایت میں بیان حد تک واضح کرتا ہے کہ انھوں نے ایران کے آئت اللہ سے مختلف امور پر مفاہمت حاصل کرلی ہےاور سعودی عرب کی ایران کی حمایت کے بدلے میں جنگ سے کمزور ایرانی قیادت شام سے ایرانی افواج کے نکالنے پر راضی ہوگئ۔۔کیونکہ جتنی جلدی سنی باغیوں نے شام پر قبضہ کیا یہ ایک ایک ہفتہ سے بھی کم ہے جبکہ اس سے پہلے دس سال سے جاری جنگ میں بشارالاسد کو واضح برتری حاصل تھی۔۔۔جتنی جلدی سنی باغیوں  نے شام کو فتح کیا۔۔اس سے ایک اور سخت گیر سنی تنظیم داعش کی عراق میں انتہائی تیزی سے ہونے والی فتوحات یاد آگیں۔۔۔

شام کے بادشاہ بشارالاسد آخر تک ایران کے آیت اللہ کی جانب دیکھتے رہےمگر ایران سے مدد نہ آئی۔۔صاف معلوم ہے ایران کی حمایتی تنظیم حزب اللہ کی لیڈر شپ کے ختم ہونے سے ایران کی پراکسی جنگ لڑنے کی صلاحیت کم ترین سطح پر آگئی ہے۔

شام کی اس جنگ میں دونوں شیعہ اور سنی اطراف سے جس بے دردی سے خون بہایا گیا اور سفاکی دکھائی گئی ۔اس کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کی عوام جو کو خود کو اسلام کا قلعہ سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کی ایک دوسرے پر کی جانے والی اس بربریت کے بارے میں شاید بہت کم جانتےہیں لیکن پوری دنیا جاننے کا دعویٰ ایسا کرتے ہیں کہ جیسے آئن اسٹائن نے اپنی تھیوری بھی  پاکستانیوں سےپوچھ کر لکھی تھی ۔

دس سال سے جس جنگ میں ایران مسلسل فاتح تھا۔۔قیادت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے جیتی جنگ سے فرار ہونا پڑا۔۔اور سعودی عرب نے  اسرائیل ایران اس تنازع میں  ایران کی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔۔ جبکہ ترکیہ کے طیب اردوغان کے لیے بھی اچھی خبر ہےکیونکہ شام ترکی کا پڑوسی ہےجبکہ مخالفین کو نیست و نابود کرنے کے نعرے لگانے کی شوقین اور ہر جنگ میں کودنے پڑنے کی شوقین ایران کی اسلامی قیادت کے لئے حزب اللہ کے بعد ایک اور بڑی ہار ہے۔۔۔۔۔۔

یار رہے شام مڈل ایسٹ کا وہ ملک ہے جہاں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہےجبکہ حکومت شیعہ مسلمانوں کی تھی ۔۔بشارالاسد سخت گیر شیعہ فرقہ علوی سے تعلق رکھتے ہیں ایسے ہی عراق ایسا ملک تھا۔۔جہاں شیعہ اکثریت میں تھےمگر حکومت سنی صدام حسین کی تھی ۔

شام کی جنگ مسلمانوں کے لئے ایک شرم کا مقام ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی پالیسی کس طرح کروڑوں معصوم لوگوں کی زندگی کو جہنم بناگئی ۔میں بحیثیت صحافی ایلان کردی نامی شامی بچے کی لاش نہیں بھول سکتا جو کہ شام سے اسپین کشتی میں بھاگنے والے خاندان کا چار سالہ بیٹا تھا۔۔میرا بیٹا عالیان بھی اس وقت اتنا ہی بڑا تھا اور اس شامی ایلان کی لاش اسپین کے ساحل پر پڑی تھی ۔۔کیو نکہ کشتی الٹ گئی تھی۔۔۔اور میں سوچ رہا تھا اسکا قصور کیا ہے۔یہ کہ وہ ایک اسلامی ملک میں کسی شیعہ یا سنی مسلمان کے ہاں پیدا ہوا تھا۔یاایک شامی بچی کی تصویر اور ایک جملے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور میرے آنسو نکل آئے تھے۔



 اس معصوم بچی کی شکل پر صرف جنگ کی ہیبت تھی۔۔۔۔جس کے پیارے معصوم گالوں پر صرف آنسو تھے۔۔پورا جسم مٹی سے اٹا ہوا تھا۔۔۔۔اس کا پورا  خاندان رات ہونے والے ایک حملہ میں ہلا ک ہو گیا تھاوہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی اور کہ رہی تھی کہ 

میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں جاکر سب کچھ بتاونگی کہ تم لوگوں نے ہم پر کیا کیا ظلم کیا ہے۔۔۔

Monday, December 2, 2024

Propaganda by PTI

 

پی ٹی آئی نے ایسا کیوں کیا؟ 

 


 

قریب ہے یارو روز محشر، چھُپے گا کُشتوں کا قتل کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا

کہا بھی یہی جاتا ہے۔حقیقت بھی یہی ہے اور تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ اگرانسانی جان گئی ہو۔قتل عام ہوا ہو تو انسانی خون کو کوئی کتنا بھی چھپانا چاہے یہ ظاہر ہوکر ہی رہتا ہے۔ شرط یہی کہ قتل حیقیقت میں ہوا ہونہ صرف جھوٹا پراپیگنڈا کیا گیا ہو۔دنیا میں بہت سے ظالموں نے قتل عام کیا لاشیں چھپانے کی کوشش بھی کی لیکن وقت نے ان لاشوں کو آشکار کیا۔قدرت بھی انسانی قتل کو ظاہر کرنے میں لگ جاتی ہے یہاں تک کہ سمندریا دریا بھی اپنے اندر پھینکی گئی لاشوں کو کچھ وقت کے بعد اچھال دیتا ہے۔

اگر قتل چھیاپا جاسکتاتو آج قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے قتل کا کسی کو پتہ نہ چلتا۔دنیا میں کتنے ہی اندھے قتل ہوتے ہیں لیکن آخرکاران کا سراغ لگ ہی جاتا ہے اور قاتل مل ہی جاتا ہے۔ابھی کچھ دن پہلے سیالکوٹ میں ساس نے بہو کا قتل چھپانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا لیکن دودن بعد ہی سچ سامنے آگیا اور قاتل پکڑے گئے۔  کہ نہ قاتل کہیں چھپ سکتا ہے اور نہ لہو۔

دنیا کی تاریخ دیکھیں تو کتنے ہی حکمرانوں  نے طاقت کے زعم میں انسانوں کا قتل کیا دنیا میں حساب کتاب سے بچنے کے لیے لاشوں کو چھپایا۔اجتماعی قبروں میں دفن کیا لیکن یہ قبریں سامنے آئیں اور کئی ظالموں کو سزا بھی ملی۔ حالیہ تاریخ میں دیکھیں توانیس اڑتالیس میں اسرائیل نے فلسطینوں کا قتل عام کیا اور لاشیں اندھی قبروں میں چھپادیں لیکن سچ سامنے آیا اورتایخ کا حصہ بن گیا۔ انیس سو پچاس میں  کوریا کی جنگ کے دوران جنوبی کوریا کی حکومت نے شمالی کوریا سے ہمدردی رکھنے کے الزام میں اپنے ہی شہریوں کو قتل کرکے لاشیں چھپائیں لیکن یہ سچ نہ صرف سامنے آیا بلکہ قتل عام کرنے والوں کو سزائیں بھی دی گئیں۔ انیس سو تہتر میں چلی میں یہی ہواتو انیس سو پچھترمیں کمبوڈیا قتل عام میں بھی یہی کچھ ہوا لیکن سچ آج تاریخ کا حصہ ہے۔پھرانیس سو پچانوے میں بوسنیامیں مسلمانوں کے قتل عام اور لاشوں کو چھپانے کی کوشش سے کون وقف نہیں۔ یہاں بھی سچ سامنے آیا اور نہ صرف خفیہ قبروں میں دفن کی گئی لاشیں سامنے آئیں بلکہ اس قتل عام کے مجرم کو جنگی جرائم کی سزا بھی دی گئی۔



 اب پی ٹی آئی بھی مظاہرین کے خلاف چھبیس نومبرکے آپریشن میں سیکڑوں کارکنوں کو شہید کرکے ان کی لاشیں چھپانے کا الزام حکومت پر لگارہی ہے تو۔حکومت مرنے والوں کی تفصیل اور ثبوت مانگ رہی ہے۔ یہ ثبوت پی ٹی آئی نہ دے رہی ہے اور نہ ان کے پاس ہیں کیونکہ کوئی قتل عام نہ ہوا ہے اور نہ ہی حکومت اس طرح کا کوئی اقدام کرسکتی ہے کہ ایسے اقدامات سے حکومتیں مضبوط نہیں کمزورہوجایا کرتی ہیں۔حقیقت کی تلاش کےلیے ان الزامات کی تفتیش ہونی چاہئے تاکہ سچ سامنے آئے۔پی ٹی آئی اگر سنجیدہ ہے تو جھوٹ تراشنے کی بجائے حکومت کے ساتھ تعاون کرے جو بھی ثبوت یا معلومات ان کے پاس ہیں وہ شیئر کرے اب تو حکومت نے جے آئی بنادی ہے۔ اب حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس جے آئی ٹی میں سامنے آنے والے حقائق قوم کے سامنے رکھے۔ جس نے بھی اس جھوٹ کے پھیلانے میں ساتھ دیا ہے ان کے چہرے بھی قوم کو بتائے جائیں۔

حقیقت سامنے کی ہے کہ آپریشن کی رات اس طرح کے کسی بھی قتل عام  کے ثبوت کسی  بھی طرف سے  سامنے نہیں ہیں لیکن خدا نخواستہ اگر ایسا کچھ ہوا بھی ہے جس کا الزام پی ٹی آئی لگارہی ہے تو تاریخ کا سبق یہی ہے کہ۔

چھپے گا خونِ ناحق کس طرح پیشِ خدا قاتل

ترے دامن پہ چھینٹے، آستینوں پر لہو ہو گا۔

قتل اور لاشیں چھپائی جاہی نہیں سکتیں یہ حکومت بھی نہیں چھپاسکتی اور نہ ہی چھپارہی ہے کہ ایسا قتل عام نہ ہوا ہے اور نہ کوئی لاشیں تھیں جن کو چھپانے کی ضرورت پڑتی۔

 

 

 


Sunday, October 27, 2024

Hamid MIR and his venom


حامد میرسے یہی توقع تھی۔۔۔ 

قاضی کاجرم یہ ہے کہ پوری قوم کوپاپولرفیصلوں کی عادت تھی لیکن قاضی صاحب نے کسی پارٹی کی خواہش،یا اپنی ٹرولنگ کی فکر کیے بغیر قانون کے مطابق فیصلہ دیدیا۔ قاضی کا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے سپریم کورٹ کی سماعت کو لائیو کرکے گروگھنٹال وکلا اور قانونی ماہرین کو ایکسپوز کردیا ہے۔ قاضی کا جرم یہ بھی ہے اس نے اپنی آمریت قائم کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کوسپریم تسلیم کرلیا ہے۔قاضی کا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے کسی کے”کرش“میں آئین کو دوبارہ لکھنے سے انکارکیا ہے۔قاضی کا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے الیکشن کی تاریخ کو پتھر پر لکیر کہہ کر اس پرپہرہ بھی دیا ہے۔حیرت پی ٹی آئی کے دوستوں پر بالکل نہیں بلکہ ان پر ہے جو صحافی کہلاتے ہیں لیکن اس فیصلے میں آئین اور قانون کی بجائے کسی پاپولرفیصلے کی توقع پوری نہ ہونے پراچھل اچھل کر چھتیں توڑرہے ہیں اوربددیانتی سے پی ٹی آئی وکلا کی بجائے قانون کے مطابق فیصلہ دینے والے چیف جسٹس  پرتنقید کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ کوجسٹس منیر سے ملانا چاہتے ہیں



یہ میرے سولہ جنوری 2024کے کالم کی چند سطریں ہیں۔یہ کالم اس وقت لکھا تھا جب مقبولیت پرست گروہ آئین اورقانون کے عین مطابق پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن نہ کروانے کے فیصلے پرپی ٹی آئی سے الیکشن نہ کروانے کاسوال کرنے کی بجائے چور کے کوتوال کو ڈانٹنے جیسا رویہ اپنائے ہوئے تھا۔ایسے لوگوں کا دکھ نہ اس ملک کا آئین ہے نہ قانون۔ایسے لوگوں کا دکھ اس ملک میں چند لوگوں سے اپنی نفرت،ایک پارٹی سے محبت اور اپنی ذات کا منافع ہے۔ایسے لوگ صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے بھیس میں ”فیکیے“ ہیں جو اس معاشرے کی ”تانی“ کو جھوٹ پھیلاکر کاٹ رہے ہیں۔ان کا چونکہ کسی نے راستہ نہیں کاٹا اس لیے ان کے دانت اتنے تیز ہوگئے ہیں کہ اب اس ملک میں کسی کی پگڑی ان سے محفوظ نہیں۔ان لوگوں کی معیشت اس نفرت کے کھیت سے وابستہ ہے۔یہ نفرت کی کھیتی ان کے لیے ڈالرا گاتی ہے اور مقبولیت پرست گروہ اس کھیتی سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے۔

ایسے”دولہے شاہ“ دانشوروں میں ایک نام حامد میر صاحب کا بھی ہے۔ حامد میرفوج سے اپنی روایتی نفرت میں ہر اس شخص کی پوجا کرنے لگتے ہیں جو اپنی ذات یا سیاسی اسکور برابر کرنے کے لیے پاک فوج کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ میرصاحب اپنی سوچ،رائے اور تجزیے کو ”مقبولیت پرست“ گروہ کے ہاں کافی عرصے سے گروی رکھ چکے ہیں۔فوج سے نفرت کے بہاؤمیں بہتے چلے جارہے ہیں اور اپنا قلم”مقبولیت پرست“ گروہ کی خوراک کے لیے وقف کرچکے ہیں۔انہوں نے جانے والے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اپنے اندر مقبولیت پرستوں والا زہر پال رکھا تھا لیکن وہ یہ زہر تھوکنے کے لیے قاضی صاحب کے  جانے کا انتظار کررہے تھے۔ مجھے حامد میر صاحب سے یہی توقع تھی جو انہوں نے اپنے حالیہ کالم میں قاضی صاحب کو جسٹس منیرقراردیکر چاندپر تھوکاہے۔

جناب حامد میرصاحب کو یہ روانی،شہرت، صحافیانہ مقبولیت اور ریٹنگ اس لیے میسر ہے کہ ان کے پاس جنگ کا کالم اور جیونیوز کی سکرین ہے۔ان سے یہ دونوں چیزیں واپس لے لی جائیں تو حامد میر صاحب اپنی آوازاورالفاظ لوگوں کو سنانے کے لیے جدوجہد کرتے دکھائی دیں گے۔کچھ عرصہ قبل ان کو زعم ہوگیا تھا کہ وہ بہت مقبول اینکر ہیں اور جس ٹی وی سے اپنا نام جوڑیں گے وہ ٹی وی شہرت کے آسمان پر پہنچ جائے گا۔ان کے بھائی عامیر میر صاحب لاہورسے زبیر چٹھہ صاحب کاچینل  شروع کرنے لگے تو انہوں نے منصوبہ بنایا کہ حامد میر کو جیوسے توڑکر  اس چینل سے جوڑ دیا جائے تویہ جیوکو مات دے دے گا۔اس گیم میں حامد میر صاحب کو ”گج وج“ کے جیوسے جی این این لایا گیا لیکن جیوسے اترنے اور جنگ سے محروم ہونے کی دیر تھی کہ حامد میر صاحب کو خود کی شکل بھولنے لگ گئی۔یہی حامد میر تھے جو جیو پر شو کرتے تو پہلے نمبر پر آتا تھا اور جی این این کے کنویں میں گرنے سے جنگل اور مور جیسے حالات ہو نے لگے تو حامد میر جی این این کو ادھورا چھوڑ کرواپس جیو بھاگ آئے۔

حامد میر صاحب اصول پرست اور بہادر اتنے ہیں کہ جب عمران خا ن صاحب کے دورمیں یوٹیوبر اسد طورپر تشدد ہوا تو حامد میر کو فوج کے خلاف زہر تھوکنے کا ایک اور موقع مل گیا۔انہوں نے اسد طورکے حق میں ایک  مظاہرے کے دوران جنرل فیض حمید پر بغیر ثبوت کچھ الزامات لگادیے۔ان الزامات نے ان کو آف ایئر کردیا۔چند ماہ جیو اور جنگ سے دور ہوئے تو اس مقبول صحافی کو ”نانی چیتے“آگئی  اور پھر حامد میر صاحب نے جس نیشنل پریس کلب کے سامنے کھڑے ہوکر فیض حمید پرالزامات لگائے تھے اسی پریس کلب میں پی ایف یو جے اور کچھ دیگر”گارنٹرز“کی گارنٹی پر فیض حمید سے معافی تلافی کے بعد دوبارہ سکرین پر آنے میں کامیاب ہوئے تھے۔یہ فوج کی نفرت کا ہی فیض تھا کہ حامد میر نے اپنے سخت ترین مخالفین عمران ریاض اور صدیق جان جیسے لوگوں،جو حامد میر کی کردارکشی کیا کرتے تھے، ان کے ساتھ ہاتھ ملالیے اور پھر جم کر فوج کی مخالفت میں سرگرم ہوگئے۔

قاضی صاحب پر تھوکنے والوں میں  ان جیسے کچھ صحافی اور بھی ہیں  ایک نام عامر متین کا بھی ہے لیکن وہ اس قابل نہیں کہ تذکرہ کروں لیکن میں یہاں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا کا ذکر کروں گا۔حامد رضا مذہبی سیاستدان ہیں۔وہ اسلامی شعائر،بدگمانی،حسن ظن اور کینہ جیسے بدطینت جذبات سے باقی عوام سے زیادہ واقف ہوں گے اس لیے ان کا احتساب بھی اللہ کے حضور کڑاہوگا۔انہوں نے بھی قاضی صاحب کے خلاف سوشل میڈیا پوسٹ میں مغلظات بکی ہیں۔وہ اسلام کا پرچار کرتے ہیں لیکن اپنے اندرکے شیطان کو الزامات لگانے سے روک نہیں پائے اورانہوں نے بھی حامد میر صاحب کی طرح قاضی صاحب کے خلاف زبان درازی کے لیے ان کے عہدے سے اترنے کا انتظار کیا۔

 اس صحافتی  بددیانتی پر ایسے عناصر سے اتنا سوال ہے کہ کیا قاضی صاحب اس لیے جسٹس منیر ہیں کہ انہوں نے کسی آمر کوجوازدیا ہے؟یا اس لیے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذات کے لیے کوئی ”نظریہ ضرورت“ایجاد کیا ہے؟یا انہوں نے کسی کی محبت میں آئین دوبارہ تحریر کردیا  ہے؟ یا ایسے لوگوں کو محض اس لیے تکلیف ہے کہ انہوں نے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کی بالادستی کا ڈنکابجایاہے؟

 

 

 

 

 


Wednesday, October 9, 2024

Religious Education System

 

دینی مدارس:طلبا،مستقبل،مسائل اورچیلنجز

جمعیت طلبہ عربیہ کے منتظم اعلی محمد افضل گول میز کانفرنس کی میزبانی کرتے ہوئے


ملک  میں تعلیمی شعبے کا حال ویسے بھی اچھا نہیں ہے لیکن کسی کو اچھالگے یا برا کوئی اس کومتوازی نظام تعلیم سمجھے یا غیرضروری کہتا رہےیہ حقیقت تو ماننی ہی پڑے گی  کہ اس ملک میں مروجہ تعلیمی نظام جو اسکولوں اور کالجز پرمشتمل ہے ،کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمی اداروں کا بھی وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔اس وقت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں کوئی پینتیس ہزار مدارس موجود ہیں جن میں سے نصف کے قریب وفاقی وزارت تعلیم کے ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجئس ایجوکیشن کے ساتھ باقاعدہ رجسٹرڈہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں اس وقت چالیس لاکھ کے قریب طلبا زیر تعلیم ہیں۔

یہ چالیس لاکھ بھی ویسے ہی پاکستانی بچے اور طالب علم ہیں جیسے ہمارے ارد گرد سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں میں زیرتعلیم ہیں۔بچے دینی مدارس یا مذہبی تعلیم کیوں حاصل کرتے ہیں اس کی وجہ صرف اور صرف غربت یا والدین کا سوشواکنامک اسٹیٹس ہے یا والدین کی اپنے بچوں کے لیے دینی تعلیم ترجیح ہے یا یہ سب کچھ وہ ثواب اورآخرت کی تیاری کے پیش نظر اختیار کرتے ہیں یہ باتیں قابل بحث ہوسکتی ہیں اور کسی کو اس سوچ یا نظریے سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے لیکن ان تمام حالات کے درمیان اس حقیقت کو نظراندازکرنا ممکن ہی نہیں ہے کہ ایسے طالب علم چالیس لاکھ کی تعداد میں ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور پھر ان کو بھی مفید شہری بنانااور ان کا مستقبل بہتر بنانا بھی اسی طرح ریاست کے فرائض میں شامل ہے جس طرح روایتی تعلیمی اداروں کے گریجوایٹس کا ہے۔

اس کو ریاست کی عدم توجہی کہیں یا مجرمانہ سوچ اور غفلت کہ اس نے دینی تعلیم کے اداروں کے لیے اس سسٹم میں کوئی خاص جگہ نہیں رکھی تو دوسری طرف دینی مدارس چلانے والوں نے بھی حکومتوں اور ریاست کو دینی تعلیم کا دشمن گرداننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور نتیجہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے تاریک مستقبل کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔دینی تعلیم حاصل کرنے والے چاہتے کیا ہیں ؟ یہ سوال بڑا اہم ہے لیکن اس کا جواب سادہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح باقی تعلیمی اداروں سے پڑھنے والوں کو مقابلے کی اجازت ہے ان کا بھی یہی حق تسلیم کرکے ان کو بھی نوکریوں کےلیے امیدوار مان لیا جائے۔


جمعیت طلبہ عربیہ دینی مدارس کے طلبا کی نمائندہ تنظیم ہے اوراس تنظیم نے دینی مدارس کے طلبا کے درمیان اتحاد قائم کرکے ان کو درپیش مسائل اجاگر کرنے کی مہم کا آغازکررکھا ہے ۔انہی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے جمعیت طلبہ عربیہ نے منصورہ لاہورمیں ایک گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا ۔  منتظم اعلی محمد افضل کی طرف سے بلائی گئی اس گول میزکانفرنس میں وفاق المدارس اور تنظیم المدارس کے نمائندوں نے شرکت کی، دینی مدارس اور طلبا کو درپیش مسائل پر خوب گفتگو کی گئی ۔

اس کانفرنس کے شرکا کے خیالات جان کرمجھے یوں لگا جیسے دینی مدارس کی ترقی اور معاشرے میں ان کا جائز حصہ دلانے کی کوششیں دم توڑ چکی ہیں۔ دینی مدارس میں طلبا جو تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ درس نظامی کہلاتی ہے ۔سات یا آٹھ برسوں پر محیط یہ عربی اور اسلامیات کی سمجھ بوجھ اور فقہی ،شرعی مسائل پر دسترس حاصل کرنے کی ڈگری ہوتی ہے ۔جمود کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ مدارس کی سند شہادۃ العالمیہ کو انیس سو بیاسی میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ایم اے عربی اور اسلامیات کے مساوی قراردیا تھا ۔اس کے بعد ملک میں کئی نظام بدلے۔ تعلیمی نظام میں جوہری تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔میٹرک کے بعد ہی اسپیشلائزیشن کا آغازہونے لگا۔ ایم اے بی ایس میں بدل گیا لیکن دینی مدارس کی باقی اسناد کو تسلیم کرانے کے لیے کسی نے کام کیا اور نہ سرکار کو خیال آیا۔ آج دینی مدارس کے طلبا چاہتے ہیں کہ ان کی ڈگری کو بھی بی ایس کے ہم پلہ قراردیاجائے تاکہ وہ مروجہ نوکریوں میں اپلائی کرسکیں ۔

ایک اہم مسئلہ ایچ ای سی اور تعلیمی بورڈز سے دینی مدارس کی اسناد کو ایف اے بی اے یا ایم کے ہم پلہ قراردلوانے کا عمل بہت ہی طویل اور امتیازی سلوک کا شکار ہے تو اگر حکومت قراردے چکی ہے کہ درس نظامی کی ڈگری ایم اے عربی اور اسلامیات کے ہم پلہ ہوگی تو پھر اس پر سرکاری مہر لگانے میں اتنی مشکلات کیوں ہیں؟اس لیے ایچ ای سی کاایکولینس کا نظام آسان بنانا لازمی ہے۔

جب یہ مدارس کی ڈگری سرکاری طورپرتسلیم شدہ ہے تو پھر سرکاری ملازمتوں ،کالج یونیورسٹی کی سطح پر لیکچرشپ  اور مسلح افواج میں نوکریوں کےلیے بھی اس کو تسلیم شدہ بنایا جائے تاکہ ایسی ڈگریاں رکھنے والوں میں جو احساس محرومی پیدا ہوتا ہے اس کا خاتمہ ہو اور دینی طبقہ جو اپنے علاوہ سرکارکو طاغوت اور اپنامخالف سمجھتا ہے اس سوچ کا خاتمہ بھی ہوجائے۔

اب چونکہ ہمارے ہاں نیا تعلیمی نظام رائج ہوچکاہے جس کے تحت ایف اے کے بعد چار سالہ ڈگری بی ایس کہلاتی ہے اور یہی ڈگری ماسٹر کی ڈگری بن چکی ہے تو مدارس کی ڈگری کو بھی بی ایس کے مساوی مان لیا جائے کہ وہ بھی تو اسلامی تعلیم ہی حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے اپنے بورڈز سے امتحان دیتے ہیں اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ درس نظامی پڑھنے والے طلبا ایف اے بی اے اور ایم اے سے زیادہ مشکل نصاب پڑھتے ہیں۔ زیادہ وسیع نصاب پڑھتے ہیں۔زیادہ گہرائی سے چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں زبان وبیان پر عبور ان کا کہیں زیادہ ہے تو پھر ان کو معاشرے میں مروجہ نظام سے دوررکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

یہ مسائل جینون ہیں لیکن ایک بات اور بھی اہم ہے کہ دینی ادارے چلانے والے بھی قصوروارہیں کہ انہوں نے خود کو جدید نہ بنانے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ اپنے آپ  کو زمانے کے ساتھ بلکہ آگے چلانے کے لیے منہاج یونیوسٹی کی مثال سب دینی مدارس کے لیے مشعل راہ ہے۔سب دینی مدارس کے منتظمین کو مطالعہ کرنا چاہئے کہ کس طرح منہاج القرآن ایک شریعہ کالج یا دینی مدرسے سے ایچ ای سی سے منظورشدہ عظیم یونیورسٹی میں بدل گیا اگر مہناج القرآن ترقی کرسکتا ہے تو باقی دینی مدارس بھی کرسکتےہیں۔

جمعیت طلبہ عربیہ کی دینی مدارس کے مسائل کو اجاگرکرنے مہم قابل ستائش ہے یہ اہم موقع ہے کہ دینی مدارس کے منتظمین اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کرخود کو منوانے کے لیے متحد ہوجائیں۔


Monday, September 2, 2024

Himmat Card

پنجاب حکومت کاہمت کارڈ

محکمہ سماجی بہبودکی ہمت کی کہانی 

تحریر:رانا طارق ،سکاٹ لینڈ

سیاستدان عوامی ووٹ سے  ایک سیاسی منشور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلۓ اقتدار میں آتے ہیں۔انکا بنیادی ہدف عوامی کی خدمت، فلاح ، تعلیم ، حفاظت، صحت اور سماج کی مجموعی ترقی ہوتا ہے۔ جس کو حاصل کرکے نہ صرف آئیندہ اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرتے ہیں بلکہ اقوام عالم میں اپنے ملک  کا قد اور رتبہ بھی بلند کرنے کا سبب بنتے ہیں۔  

پاکستان مسلم لیک ن فروری دوہزار چوبیس  کے عام انتخابات کے بعد ایک دفعہ پھر اقتدار میں آئ اور محترمہ مریم نواز اپنے سماجی انقلاب کے ایجینڈے کے ساتھ سیاسی پنڈتوں کی تمام تر پیشینگوئیوں اور پروپیگنڈے کے برعکس وزارت اعلیٰ کے منصب پر براجمان ہو گئیں۔ انہوں نے آتے ہی دن رات ایک کرکے اپنے اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلۓ اپنی ٹیم کا انتخاب کرنا شروع کیا۔ اپنے ٹیم کیلۓ انہوں نوجوان ، باہمت، ایماندار اور مقصد کے حصول کیلۓ متحرک ٹیم کا انتخاب کیا۔

محکمہ سماجی بہبود و بیت المال   غریب، مجبور اور بے بس عوامی طبقات کو بہترین اور تیز ترین حکومتی خدمات پہنچانے  کا ذمہ دار ہے اور یہ ہی وہ حکومتی بازو ہے جو اپنی بہترین کارگردگی کی بدولت حکومت اور حکمرانوں کا بہترین خاکہ عوام کے دل و دماغ میں نقش کر سکتا ہے۔ محترمہ مریم نواز نے اس محکمے کیلۓ وزیر کے طور پر سہیل شوکت بٹ اور سیکرٹری کیلۓ اقبال حسین جیسے بے داغ کردار کے لیڈروں کا انتخاب کیا۔ اقبال حسین اس پہلے بھی شہباز شریف کی سابقہ پنجاب حکومت میں ایک متحرک ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ کے طور پر اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔


اقبال حسین،صوبائی سیکریٹری

اس تعیناتی سے پہلے سیکریٹری داخلہ گلگت بلتستان اور سی۔ ای۔ اور پنجاب پبلک پرائیویٹ پارٹنر شب خدمات انجام دے گر حکومت کی گڈبکس میں اپنا نام رکھتے ہیں۔

وزیراعلی کی ہدایات پر انہوں نے  محکمہ کے وزیر اور اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر سماجی خدمات کو عوام کی دہلیز تک پہجانے کیلۓ بہت سارے پروگرامز کا نہ صرف خاکہ بنایا بلکہ انکو سرانجام دینے کی حکمت عملی بھی ترتیب دی۔ ان پروگرامز میں سب سے اوپر ہمت کارڈ، تاریخ کی سب سے پہلی سماجی بہبود کی پالیسی، خصوصی افراد کی تکنیکی مہارت کی ٹریننگ کا ٹیوٹاکے ساتھ معاہدہ، ہیومن ریسورس کیلۓ سٹریٹیجک پالیسی کا قیام و منظوری ، بیواؤں اور یتیموں کیلۓ نگہبان کارڈ ، عورتوں پر مظالم کے خلاف ملتان سینٹر ماڈل جیسے تین اور مراکز کا قیام،معذور افراد کی بہبود کیلۓ پرائیویٹ سیکٹرکے ساتھ تعاون کا معاہدہ، وزیراعلی کے اجتماعی شادیوں کے پروگرام کا اجرا، پنجاب بیت المال کی سالانہ گرانٹ کو ڈھائی سو ملین روپے سے بڑھا کر پانچ سو ملین تک کروانا، صوبائ بہبود ڈسپلے سینٹر لاہور کا قیام   جہاں خصوصی افراد کی بنائ اشیأ کو نمایاں طور پر دکھایا جا سکے۔ اور انکے علاوہ بہت سارے دوسرے شاندار منصوبے۔

جب وزیراعلی کو  سیکٹری کی جانب سے ہمت کارڈ منصوبے کے خدو خال کی پریزینٹیشن دی گئی تو وزیراعلی نے فی الفور اس کو عملی جامعہ پہنانے کیلۓ 2658 ملین روپے کی خطیر رقم کے اجرا کی نہ صرف منظوری دی بلکہ اس کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کام بھی اقبال حسین کو سونپ دیا۔اس طرح یہ پنجاب حکومت کی ہمت،لگن ،وژن اورمحکمہ سماجی بہبود کی ٹیم کی محنت کی بدولت آج معاشرے کا یہ طبقہ بھی زندگی کی دوڑ میں سب کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہے۔

سیکٹری سماجی بہبود و بیت المال نے پورے صوبے میں تحصیل لیول تک کے اسسٹینٹ ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر و بیت المال کو دن رات کام پہ لگا کر ان مستحق افراد کا گھر گھر جا کر  نہ صرف ڈیٹا اکٹھا کروایا بلکہ اسکی تصدیق بھی کروائ۔ اس وقت پنجاب بھر میں تین لاکھ کے قریب رجسٹرڈ معزور افراد ہیں اور ان میں سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب ایسے افراد ہیں جو کام کرنے کے اہل نہیں۔

انکی  اور انکی ٹیم کی اس انتھک شبانہ روز محنت کے نتیجے میں ہمت کارڈ کا نہ صرف ڈیزائن حتمی ہوا بلکہ ان افراد کو ستمبر سے ہر سہ ماہی دس ہزار پانچ سو روپے کی امداد پہنچنا شروع ہو جائیگی۔ ہو سکتا ہے یہ رقم ان معذور اور محروم افراد کے تمام دکھوں کا مداوا نہ کر سکے مگر انکو سماج میں پیچھے رہنے کی ذہنی اذیت سے نجات دلا کر اہم ہونے کا احساس ضرو اجا گر کرے گی۔ ان کو بھی لگے گا کہ حکومتیں اور حکومتی افسر شاہی صرف باتیں ہی نہیں کرتی بلکہ واقعی عوامی فلاح و بہبود میں سنجیدہ ہے۔

بہترپرفارمنس اور اچھی گورننس کےلیےایک اچھی ٹیم کا انتخاب ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ اپنی سیاسی منشور کے حصول میں انکی شبانہ روز محنت کی عوامی سطح پر پذیرائی بھی ضروری ہوتی ہے۔ گو کہ اقبال حسین اب اپنی گریڈ اکیس میں ترقی کے نیشنل مینیجمینٹ کورس میں ہیں مگر انکے یہ تمام کارنامے عوامی سطح پر پزیرائ کے حقدار ہیں۔ تاکہ عوام جو سماجی رابطے  کے پلیٹ فارمز پر جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈوں سے حکومت اور افسر شاہی سے بیزار کر دئیے گۓ ہیں انکا حکومت اور اقبال حسین جیسے قابل افسران پر اعتماد بحال ہواور سماج کی بہبود اور ترقی کا تسلسل جاری رہ سکے۔


Sunday, June 16, 2024

THE LAST SERMON OF PROPHET MUHAMMAD ﷺ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ اور ہم  



جب بھی۔ جس جگہ،جس مجلس اور جس موقع پر بھی حج کی بات ہوتی ہے تو ہمارے پیارے نبی اخرلزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ حج ہمارے لیے مشعل راہ بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔پورے دین اسلام کانچوڑ یہی خطبہ حج ہےیہی وہ خطبہ ہے جس میں حضورنے چودہ سو سال پہلے انسانی حقوق کا مکمل چارٹرپیش کردیا،انسان کی جان ومال کے تحفظ کا چارٹردے دیا۔خواتین کے حقوق کا چارٹردے دیا اورانسانی مساوات اور برابری کا چارٹردے دیا۔

یہی وہ دن تھا جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا دین اسلام مکمل ہونے کا اعلان کیا۔چودہ سوسال سے ہر سال بیت اللہ کا حج ہوتا ہے لاکھوں فرزندان اسلام اسی میدان عرفات میں جمع ہوتےہیں اورخطبہ حج سنتے ہیں جس جگہ حضور اکرم صلہ اللہ علیہ وسلم نے اپنا آخری خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔حج کے موقع پر خطبے کا سلسلہ تو چودہ سو سال سے جاری ہے تاکہ مسلمانوں کے اعمال اورعقیدے کی اصلاح ہوسکےکیا کبھی سوچا ہے کہ ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنےآخری خطبے میں کیا کچھ کرنے کا حکم دیاتھا اور ہم کیا کررہےہیں۔

آپ نے تو فرمایا تھا کہ  سب انسان برابرہیں۔کسی کو کسی بھی بنیادپربرتری حاصل نہیں لیکن ہم ذات پات میں بٹ گئے۔طاقتوراور کمزورکی دنیا الگ کرتے چلے گئے۔آپ نے تو فرمایا تھا کہ ایسا نہ کرنا کہ دنیا کے مال کا بوجھ لے کر قیامت کے میدان میں آجائیں لیکن ہم نےتو مال جمع کرنے میں حلال اورحرام کے فرق کو ہی ختم کردیا۔آپ نے تو فرمایاتھا کہ تمہاری جھوٹی شان وشوکت آج ختم کردی لیکن ہم نے جھوٹی شان اور کھوکھلی اناوں کو ہی اپنی عزت کاسامان کرلیا۔آپ نے تو فرمایا تھا کہ تمہارا خون ایک دوسرے پرحرام کردیا گیاہے لیکن ہم نے قتل وغارت ،لڑائی جھگڑوں دھونس دھاندلی اور کمزورکو دبانے کو ہی زندگی میں آگے بڑھنے کا نصاب بنالیا۔ آپ نے توفرمایا تھا کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ایک دوسرے کی مددکرنا لیکن ہم ایسے بھائی ہیں کہ ہمارے سامنے فلسطین کے بچے ذبح کیے جارہے ہیں اورہم اپنی اپنی موج مستیوں میں مصروف ہیں۔

آپ نے تو فرمایاتھا کہ اپنے غلاموں اور ملازموں کو وہی کھلانا جو تم خود کھاتے ہولیکن ہم بڑے بڑے ہوٹلوں میں خود اچھا کھاتے ہیں اوراپنے گھریلوملازموں کو ایک کونے میں بٹھادیتےہیں۔آپ نے تو فرمایاتھا کہ میں نے سارے انتقام اپنے پاوں تلے روند دیے ہیں لیکن ہم جب تک اپنے مخالفین سے انتقام نہ لےلیں ہمیں ٹھنڈ ہی نہیں پڑتی۔آپ نے توفرمایا تھا کہ دورجاہلیت کے سارے سود ختم کردیے گئے ہیں لیکن ہم اپنےاسلامی ملک کی ساری معیشت سود پر چلائےچلے جارہےہیں۔

آپ نے تو فرمایا تھا کہ کسی کے جرم کابدلہ دوسرے سے نہیں لیا جائے گا لیکن ہم نے یہاں ملزم کے بدلے اس کے گھروالوں، بیٹے کے بدلے باپ اوربھائی کے بدلے بھائی یہاں تک کہ ماوں اوربہنوں کو گھروں سے اٹھانے کو قانون ہی بنالیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ مکمل ضابطہ حیات ہے ہماری کامیابی کانصاب ہے۔پورے معاشرے کی بہتری اور ترقی کا راستہ ہے۔لیکن اگرہم ان باتوں پر عمل نہیں کرتے تو پھر وہی ہوگا جو آپ نےفرمایاتھا کہ ایسا نہ ہوکہ آپ دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی گزارکر دنیا کی بداعمالیوں کا بوجھ سرپر رکھ کر اللہ کے حضور پیش ہوجاواگر ایسا ہواتو قیامت کے دن تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکے گا اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر مکمل عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Tags

#Hajj #Hajj2024

#Last Surman #Khutba hijjatul widah 

Wednesday, April 24, 2024

Amir Muqam and PMLn

 

ن کا مقام 

امیر مقام پاکستان کی سیاست کا ایسا نام ہیں کہ جس بھی پارٹی میں رہے ان کے تعلقات ہمیشہ’’ ٹاپ لیڈرشپ‘‘کے ساتھ رہے۔ان پرعہدوں اور نوازشات کی بارش ہی ہوتی رہی ۔اب ان کے پاس کیا ’’گیدڑسنگھی ‘‘ ہے یہ معلوم نہیں ۔جب تک پرویز مشرف زندہ اور طاقت میں رہے اس وقت تک تو ان کا ذاتی پستول امیر مقام کے پاس کسی گیدڑسنگھی سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔سوات کے امیرمقام کا سیاست میں جنم پرویز مشرف کے بنائے لوکل گورنمٹ سسٹم میں 2001میں ہواجب وہ پہلی بار یونین کونسل کے ناظم بن گئے۔ایک سال بعد ہی پرویزمشرف نے عام انتخابات کروائے تو انہوں نے سوات سے متحدہ مجلس عمل (یہ قاضی حسین احمد کی قیادت میں پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا جس میں مولانا فضل الرحمان اورجماعت اسلامی دوبڑی جماعتیں شامل تھیں)کے ٹکٹ پرپراپنا قومی اسمبلی کا پہلا الیکشن لڑااور اے این پی کے سفیر خان کا شکست دے کرقومی اسمبلی پہنچ گئے۔

یہاں سے امیر مقام کی اصل سیاست کا آغازہوتا ہے ۔وہ جیت کر تو ایم ایم اے کے ٹکٹ پر اسمبلی آئے تھے اوریہ اتحاد اس وقت مسلم لیگ ق کا مخالف تھا۔پرویز مشرف کی چھتری مسلم لیگ ق پر تھی اور ایم ایم اے کے رہنما مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اورصوبہ خیبرپختونخوا میں بھی متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امیر مقام اپنی پارٹی میں رہ کر ایم ایم اے سے وفاداری کرتے اور اپوزیشن کی سیاست کرتے لیکن وہ اپوزیشن کی سیاست کے
لیے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔انہوں نے اس وقت کے ڈکٹیٹرپرویزمشرف سے قربت تلاش کرنا شروع کردی۔بہت ہی جلد انہوں نے خود کو پرویز مشرف کے اتنا قریب کرلیا کہ پرویز مشرف نے امیر مقام کو اپنا ذاتی اور بیش قیمتی گلوک پستول تحفے میں دے دیا۔امیر مقام نے اس کے بعد اپنی جماعت متحدہ مجلس عمل کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔وہ عام زبان میں لوٹے بن گئے اورق لیگ میں شامل ہوگئے ۔حیران کن بات یہ بھی تھی کہ ان کی جماعت متحدہ مجلس عمل اور اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمان نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ۔وہ ق لیگ میں شامل ہوئے اور پرویز مشرف نے ان کو پانی و بجلی کا وزیربنادیا۔2008کا الیکشن انہوں نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر لڑا اور پھر جیت گئے ۔
وہ مسلم لیگ ق میں رکن قومی اسمبلی رہے لیکن بس ایسے ہی رہے کہ ان کی مزید آگے بڑھنے کی جدوجہد جاری رہی۔مسلم لیگ ق کے بعد انہوں نے اپنے محسن پرویزمشرف کی سب سے بڑی مخالف اور دشمن نمبر ون نوازشریف کی پارٹی کو اپنی اگلی منزل کے لیے منتخب کرلیا۔ایک طرف ڈکٹیٹر سے پستول کا تحفہ پانے اور مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت کو ان کا ساتھ نہ چھوڑنے کا حلف دینے والے امیر مقام تھے تو دوسری طرف پرویز مشرف کے ہاتھو ں اپنا تختہ الٹوانے اور اپنی پارٹی سے بے وفائی کرنے والے چودھری شجاعت سے ناراض نوازشریف تھے۔لیکن امیر مقام کی کشش اس قدر زیادہ تھی کہ دونوں نے اپنا ماضی بھولنے کا فیصلہ کرلیا۔امیر مقام کونوازشریف نے نہ صرف اپنی پارٹی میں شامل کیا بلکہ انہیں پارٹی کا سینئرنائب صدر کا عہدہ بھی ساتھ ہی پیش کردیا۔
نوازشریف نے امیر مقام کو صرف اپنی پارٹی میں شامل ہی نہیں کیا بلکہ انہیں 2013کا الیکشن لڑنے کے لیے ریکارڈ چار ٹکٹ پیش کردیے۔ایک ایسے وقت میں جب نوازشریف کی پارٹی کا حکومت میں آنا طے شدہ تھا اس وقت بھی پارٹی کے چار ٹکٹ صرف ایک امیر مقام کو دے دیے گئے اور امیر مقام نے چار سیٹوں سے الیکشن لڑا اورچاروں ہی سیٹیں ہار گئے۔انہوں نے پہلی بار سوات کے ساتھ ساتھ پشاور سے بھی الیکشن لڑالیکن ان کو ہر جگہ سے ہی شکست ہوگئی ۔الیکشن میں ن لیگ کے اور بھی بہت سے عہدیداروں کو شکست ہوئی لیکن نوازشریف نے امیر مقام کا اپنی حکومت میں خاص خیال رکھا۔ان کو سوات میں ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے دیے۔سرکاری عہدے بھی دیے رکھے۔
خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ ن ایک بڑی پارٹی ہوتی تھی اور خاص طورپر ہزارابیلٹ تو پورا ہی ن لیگ کا تھا ۔ امیر مقام کے آنے سے مسلم لیگ ن کے خیبرپختونخوا میں اختلافات شروع ہوگئے ۔ نوازشریف پورے صوبے کو صرف امیرمقام کی نظر سے دیکھنے لگے تو ان کے دیرینہ ساتھی جو ان کی مشکلات میں ان کے ساتھ رہے وہ اس ’’امیرانہ ‘‘محبت سے اکتانے لگے ۔صوبے میں پارٹی سکڑتی گئی ۔پہلے پشاور اور باقی اضلاع میں پارٹی کا خاتمہ ہوا اور پھر ن لیگ کے مضبوط گڑھ ہزارا سے بھی ن لیگ کی چھٹی ہوتی گئی ۔امیر مقام نے 2018میں بھی سوات سے الیکشن لڑااور پھر ہار گئے ۔لیکن نوازشریف کی امیر مقام سے محبت کا عالم یہ نکلا کہ انہوںنے دس سالوں سے اپنا الیکشن تک نہ جیتنے والے امیر مقام کو صوبہ خیبرپختونخوا کا پارٹی صدر بنادیا۔امیر مقام کے صدر بننے سے ن لیگ میں صوبائی سطح پر شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ماضی میں ن لیگ کی پہچان سمجھے جانے والے سرانجام خان، پیر صابر شاہ،مہتاب عباسی اور اسی طرح کے دوسرے رہنما پس منظر میں چلے گئے۔کچھ غیرفعام ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے،کچھ پی ٹی آئی میں چلے گئے اور کچھ ناراض ہوکر الگ ہوگئے۔پورے صوبے میں پارٹی ٹوٹتی رہی لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت نے سوائے امیر مقام کے اور کسی سے تعلق نہ رکھا۔ن لیگ کو جب بھی خیبرپختونخوا میں کوئی جلسہ کرنا ہوتا تو امیر مقام نوازشریف یا مریم یہاں تک کہ شہبازشریف کا جلسہ بھی سوات میں کروادیتے اس سے پارٹی خوش ہوجاتی۔امیر مقام کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب عدم اعتما د کے بعد شہبازشریف وزیراعظم بنے تو اس وقت بھی انہوں نے امیرمقام کو اپنا معاون خصوصی بنالیا تھا۔
کسی بھی شخصیت کا کسی پارٹی میں ترقی کرجانا۔اعلی عہدے لے لینایہاں تک کہ قیادت کے انتہائی قریب ہوجانا نہ کوئی بری بات ہے اور نہ ہی اچنبھے کی لیکن مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں جب ایک کو نوازنے کے چکر میں باقی کارکنوں کو محروم کردیا جاتا ہے۔خیبرپختونخوا میں یہاں ن لیگ ختم ہورہی تھی تو وہیں ایک نام اختیار ولی خان اس وقت سامنے آیا جب پی ٹی آئی کے دورمیں نوشہرہ میں ضمنی الیکشن ہوا۔صوبے میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور مرکز میں بھی اور نوشہرہ سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک کا آبائی حلقہ بھی ہے ۔اس حلقے سے الیکشن لڑنا ایک مشکل کام تھا لیکن اختیار ولی خان نے خود کو الیکشن کے لیے پیش کیا۔حالانکہ اگر امیر مقام چاہتے تو وہ خود یا اپنے بھائی بیٹے کے لیے یہ ٹکٹ آسانی سے لے سکتے تھے لیکن انہوں نے اس الیکشن میں اترنے سے خود کو روک لیا ۔یہ الیکشن اختیار ولی نے لڑا اورپی ٹی آئی کی حکومت کے باوجود وہ جیت گئے ۔اس جیت نے اختیار ولی کو پورے ملک میں شہرت کی بلندی پر پہنچادیا لیکن ان کی اپنی پارٹی میں ان کی وہ پذیرائی شاید نہیں ہوسکی ۔
یہ دوربھی گزرگیا ۔موجودہ الیکشن میں بھی خیبرپختونخوا میں الیکشن لڑانے اور پارٹی کی قیادت امیرمقام کے ہی پاس تھی ۔نوازشریف کو مانسہرہ سے الیکشن لڑنے کی پیشکش بھی بطور پارٹی صوبائی صدر امیر مقام نے ہی کی تھی ۔نوازشریف مانسہر سے شکست کھاگئے لیکن مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پرپہلی بار امیر مقام جیت گئے ۔اس جیت کے بعد امیر مقام کو فوری وزیربنادیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ ن لیگ میں آوازیں اس وقت اٹھنا شروع ہوگئیں جب امیر مقام کے بھائی کو خیبرپختونخوااسمبلی میں اپوزیشن لیڈرنامزدکردیاگیا۔یہاں تک بھی شاید لوگ برداشت کرجاتے لیکن کمال یہ ہوا کہ سینیٹ کے الیکشن آئے تو پورے کے پی میں شاید ایک ہی نشست مسلم لیگ ن جیت سکتی ہے اس ایک اکلوتی نشست پر بھی امیرمقام کے بیٹے نیازامیرکا انتخاب کیاگیا۔جب یہ سینیٹ کا ٹکٹ کا بھی امیر مقام کو پیارا ہواتو پھر صوبے میں ن لیگ کی لڑائی کھل کرسامنے آگئی ۔ اس فیصلے پراختیار ولی خان
اختیار ولی خان

نے سوشل میڈیا پر کھل کر تنقید کی ۔اختیار ولی خان نے اپنی پوسٹ میں یہاں تک لکھا کہ ’’میں 34سال سے ن لیگ سے وابستہ ہوں۔ میں سمجھتا تھا کہ آپ کی پارٹی سے وفاداری ہی سب سے بڑی سفارش ہوتی ہے لیکن آج میں ہر پارٹی کے کارکن کومشورہ دیتا ہوں کہ سیاست جس مرضی پارٹی میں کریں لیکن پارٹی میں اپنی سفارش کا بہتر بندوبست کرکے رکھیں ورنہ عمر گزرجائے گی اور قیادت کو آپ کے ہونے یا نہ ہونے کا احساس بھی نہیں ہوگا‘‘ مجھے اختیار ولی خان کے ان الفاظ نے بہت ہی بے چین کیا۔یہ کالم لکھنے کی وجہ بھی یہی الفاظ ہیں۔ہماری تمام ہی سیاسی جماعتوں کا اسی طرح براحال ہے۔ کارکنوں کی قربانیاں اور وفاداریاں نظر انداز کرکے پارٹی کی بجائے صرف قیادت کوفائدہ پہنچانے والے لوگ آگے لائے جاتے ہیں۔امیر مقام جیسے لوگوں کو پارٹیوں میں اعلیٰ ’’مقام‘‘مل جاتا ہے اور عام کارکن اسی طرح دکھی دل کے ساتھ کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔پارٹی کی سینئرلیڈرشپ بھلے امیرمقام کو بھی جائز مقام دے لیکن باقی لوگوں کے ساتھ بھی منصفانہ سلوک کرلے تو ملک میں جمہوریت پھلتی رہے اورسیاسی پارٹیوں میں بھی کچھ جمہوریت کا عمل دخل باقی رہے۔