Tuesday, February 4, 2025

Interesting Story Of Stars


ستاروں كی كہانی۔۔۔۔


عاطف فخر

آسمان پر دمكتے ستارے، ہماری زندگی كے لیے اتنے ضروری ہیں كہ ہم سوچ ہی نہیں سكتے۔۔یہ ستارے اپنے اندر كیا كیا راز ركھتے ہیں۔۔ہمں سب نہیں پتہ۔۔اس كائنات كی سب سے پرسرار چیز یعنی بلیک ہول بھی ستاروں سے ہی بنتا ہے۔۔۔ستارے ہماری كہكشاں میں زندگی كا سب سے بڑا سبب ہیں۔۔۔۔اس كی ایک مثال تو ہمارا سورج ہی ہے۔اگر اسكی روشنی نہ ہو تو زمین پر زندگی نہ ہو۔مگر جب ستارے ایک دھماكے كے ساتھ ختم ہوتے ہیں تو مرتے مرتے وہ ایسے عناصر بناجاتے ہیں  جو زندگی كے لیے ٖضروری ہیں۔۔۔مثلا،،،كاربن اور كیلشئیم جن سے ہمارا جسم بنا ہے وہ بھی ستاروں كی وجہ سے بنے ہیں۔۔یوں كہا جا سكتا ہے كہ ہم سب ستاروں كی باقیات ہیں۔۔۔۔۔۔ستارے كے بننے كے لیے گیس اور مٹی كے ذرات كے بادل ، كشش ثقل اور بہت سارا وقت دركار ہوتا ہے۔۔پہلے مٹی اور گیس كے ذرات آپس میں ملتے ہیں اور پھر كشش ثقل كی وجہ سے وہ اور بھی مٹی اور گیس كو اپنی جانب كھینچتے ہیں۔۔اور ستارے كے بننے كا عمل شروع ہوجاتا ہے۔۔آہستہ آہستہ ستاروں كے مركز میں كشش ثقل كی وجہ سے ہائیڈروجن كے مالیكیول آپ میں سختی سے جمع ہوتے ہیں اور پھر وہاں گرمی پیدا ہونا شروع ہوتی ہے۔۔۔پھر ایک وقت درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوجاتاہے كہ وہ كئی ملین ڈگری سینٹی گریڈ تک پہچ جاتا ہے۔۔یہاں تک پہنچتے پہنچتے تقریبا دس لاكھ سال لگتے ہیں۔۔پھر جب مركز میں درجہ حرارت ایک كڑوڑ كیلون تک پہنچتا ہے تو ،جہاں ہائیڈروجن كا ایٹم آپس میں مل كر ہیلیم ایٹم میں تبدیل ہوجاتا ہے جس سے بے پناہ توانائی خارج ہوتی ہے۔۔پھر ایک چین ری ایكشن شروع ہوجاتا ہے۔اس طرح ایک ستارے كا وجود ہوتا ہے

اس جگہ جہاں ستارے بننے ہیں اسے نیبلولا كہتے ہیں۔۔جیمس ویپ دوربین كی سب مشہور تصوری ایگل نیبولا كی ہے۔۔جسے پلر آف كریشن یعنی تخلیق بھی كہتے ہیں۔۔۔یوں ہائیڈروجن اور كشش ثقل میں ایک  جنگ لگ جاتی ہے۔۔۔كشش ثقل ستارے كو اندر كی جانب كھینچتی ہے۔۔جب كہ فیوژن ری ایكشن كے باعث پیدا ہونے والی توانائی ستارے كو باہر كی جانب دھكیل دیتی ہے۔یہ عمل اربوں سال چلتا رہتا ہے۔۔۔جب تک ستارے كا ایندھن ہائیڈروجن نہ ختم ہوجائے۔۔۔ہمارے سورج كو ختم ہونے میں ابھی صرف ساڑھے چار ارب سال باقی ہیں بالاآخر جب ہائییڈروجن ختم ہوجاتی توستارہ اندر كی جانب كھنچ جاتا ہے۔اور پھر ایک دھماكے سے پھٹ جاتا ہے اسی دھماكے كو سپرنوا كہتے ہیں۔۔سپر نوا سے اتنی انرجی نکلتی ہے كہ كائنات میں سورج كے بعد یہ سب سے روشن چیز ہوتی ہے۔۔جتنا بڑا ستارا ہوتا ہے۔۔اتنے ہی زیادہ ہیوی ایلیمنٹ پیدا ہوتے ہیں،،مثلا سونا ،لوہا ارور یورینیم۔۔۔یہاں تک كہ وہ آكسیجن جس میں ہم سانس لیتے ہیں وہ بھی ستاروں كے پھٹنے كے نتیجے میں  بےمثال طاقت كی وجہ سے پیدا ہوتی ہے یہ طاقت مختلف پروٹونز اور الكٹرونز كو آپس میں  جوڑ دیتی ہے۔۔اس طرح نئے عناصربنتے ہیں۔۔۔۔

آپ حیران ہوں گے كہ پوری دنیا كے ساحلوں جو اربوں اور كھربوں ریت كے ذرات ہوتے ہیں پوری كائینات میں ان ریت كے ذرات سے زیادہ ستارے ہوتے ہیں۔۔۔ہماری كہكشاں ملكی  وے میں دو سو ارب ستارے ہیں جبكہ ہماری پڑوسی گیلیكسی اینڈرومیڈا میں ایک ہزار ارب ستارے ہیں۔۔۔۔حیران رہ گئے مگر ستاروں كا سفر جاری رہتا ہے۔۔جب وہ پھٹ جاتے ہںں تو بڑے بڑے ستارے كشش ثقل كے باعت سكڑ كر ایك شہر كے برابر ہوجاتےہیں۔۔ان چھوٹے سے ستاروں كی كشش ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے كہ وہاں سب چیز رك جاتی ہے۔۔یہاں تك كہ وقت بھی وہاں رك جاتا ہے۔۔۔اور قریب سے گرزنے والی روشنی بھی باہر نہں نكل سكتی۔۔۔جب روشنی بھی باہر نہیں نكل سكتی تو وہ ستارے بلكل سیاہ ہوجاتے ہیں۔۔اور انھیں بلیك ہول كہتے ہیں۔۔۔یہ بات آئن سٹائن كی تھیوری آف ریلیٹیوٹی میں شامل ہے۔۔مگر خود آئن سٹائن كو بھی یقین نہ تھا كہ كوئی ایسی چیز بھی ہوسكتی ہے۔۔مگر بعد میں ہبل اورجیمز ویب دور بین كی وجہ سے ہم بلیك ہول كو دیكھ سكتے ہیں۔۔۔بلیك ہول ہر چیز كو كھا جاتے ہیں۔۔اگر ہماری زمین سورج كے گرد حركت كرتی ہیں۔۔ تو بلیك ہول كی كشش اتنی زیادہ ہوتی ہے كہ ہمارا سورچ ہماری كہكشاں ملكی وے كے مركز میں موجود بلیك ہول كے گرد حركت كرتا ہے۔۔۔قران کریم كے مطابق اگر پہاڑ روئی كے گالوں كی مانند اڑرہے ہونگے تو صرف بلیك ہول میں اتنی   طاقت ہے كہ وہ پہاڑوں كو روئی كے گالوں كی طرح اپنی جاب كھینچ لے۔۔۔۔ستارے پھٹنے سے پہلے نیوٹرون اسٹارمیں تبدیل ہوجاتےہیں۔۔۔

ایك اندازے كے مطابق ایك چائے كے چمچ كے برابر نیوٹرون اسٹار كی ریت كےاندر ماونٹ ایورسٹ كے برابر وزن ہوتا ہے۔۔۔۔۔كبھی آپ نے سوچا كہ نظام شمسی كے تمام سیارے مثلا مریخ، پلوٹو اور ہمارا چاند تو بلكل خشك ہے تو آخر ہماری زمین پر اتنا پانی كیسے آگیا۔۔۔یہ پانی اور زمین كی معدنیات مختلف سیارچوں كی وجہ سے جو زمین سے ٹكراتے تھے۔۔انكی وجہ سے زمین تك پہنچی۔۔ورنہ ہماری زمین بھی بنجر اور بغیر زندگی كے ہوتی۔۔اور یہ پانی اور لوہے جیسی معدنیات ستاروں كی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔۔۔تو زندگی ستاروں كے بنا ممكن نہیں تھی۔ہے نا كتنی دلچسپ كہانی۔۔

ہمارے سورج كے بعد سب سے قریب ترین ستارہ الفاسنچری جوكہ ہم سے چار اعشاریہ دو نوری سال كی دوری پر ہے۔۔یعنی اگر روشنی كی رفتارسے چلے تو ساڑھے چار سال لگیں گے۔۔مگر ایسی كوئی چیز ایجاد نہیں ہوئی۔۔یوں اگر ہم آج تك سب سے دور جانے والے انسانی سیٹلایٹ وویر ٹو كی رفتار سے چلیں جو كہ ستر ہزار كلومیٹر فی گھنٹے كی رفتار سے سفر كررہا ہے تو ہمیں اپنے قریب ترین ستارے تك پہنچنے میں تہتر ہزار سال لگیں گے۔۔۔۔اس اسٹار سسٹم میں زمین جیسے سیارے بھی ہیں۔۔ تو وہاں زندگی كا امكان ہو سكتا ہے۔۔۔۔مگر تہتر ہزارسال كا مطلب ہے كہ ہم نا ہی سمجھیں۔۔۔مگر ناسا والے ایسے سولر پروب كی تیاری میں مصروف ہیں كہ ہم وہاں سو سال میں كسی طرح پہنچ جائیں۔۔یعنی اس سفر میں انسان كی دو نسلیں پیدا ہوں۔۔تو تیسری نسل اس اسٹار سسٹم تك پہنچ سكے۔۔اور پھر وہاں كسی زندگی كو تلاش كی جاسكے۔

ویسے كائنات كی وسعت دیكھیں اور انسانی غرور دیكھیں كہ وہ كارنر اور ویسٹ اوپن پلاٹ پر كیسا اكڑتا ہے تو واقعی خدا كی عظمت اور انسان كے بے معنی غروركو دیكھ كر عجیب سا احساس ہوتا ہے۔۔۔


No comments: