Wednesday, October 15, 2025

Surge in Scamming

 

ڈیجیٹل اور سائیبر فراڈ میں ارتقائی جدت

خریدوفروخت کی ویب سائٹس ڈیجیٹل فراڈ کے مستقل اڈے بن گئے


موبائل فون، واٹس ایپ گروپس پر ڈیجیٹل فراڈ کی دکانیں


مالی فراڈ روکنے کے ذمہ دار ادارے ناکام، شہری بے بس


ایف آئی اے وسائل کی کمی کا شکار، پی ٹی اے کا دائرہ کار محدود




لاہور (جبارچودھری)

حکومت پاکستان نے یونان میں غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے جاں بحق

ہونے والے پاکستانیوں کے لیے ملک بھر میں یوم سوگ منانے کا اعلان کررکھا تھا۔یہ وہ

دن تھا جب جی ٹی روڈ پر واقع شہروں کے درجنوں گھروں میں صف ماتم بچھی

تھی۔میں اس سوال کے جواب کی تلاش میں تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دنیا کے کسی

بھی سمندر میں غیرقانونی تارکین وطن کی کوئی کشتی ڈوبتی ہے تو اس میں مرنے

والوں میں سب سے زیادہ تعدا د پاکستانیوں کی کیوں ہوتی ہے۔سوال اہم یہ ہمیشہ سے ہی

رہا ہے لیکن اس کا جواب کسی کے پاس اس لیے نہیں ہوتا کہ اس فراڈ کی رو ک تھام

کرنے والا ادارہ ایف آئی اے اس دھندے میں خود بھی ملوث ہے ۔

ہمارا معاشرہ اسلامی،ہم سب مومن لیکن حرام ہے کہ ایمانداری کی رتی بھی ہمارے

رویوں اور سوچ میں پائی جاتی ہو۔رویوں میں فراڈ،دھوکا،،غلط بیانی اور جھوٹ،یہی اوڑنا

بچھونا اور یہی روزگار۔ میں یہی کچھ سوچ رہا تھا کہ ایک قریبی دوست بچوں سمیت

ملنے آگئے،آتے ہی کہا کہ ایک کام ہے بچوں کے لیے گیمنگ مشین پلے اسٹیشن خریدنا ہے

خریدوفروخت والی ویب سائیٹ سے بچوں نے ایک مشین پسند کی ہے آپ ذرا بات کرکے

ڈیل کردیں۔ میں نے اس اشتہار پر نظر ڈالی ،اشتہار انتہا ئی جاذب نظر،پیشکش پرکشش ،

مارکیٹ میں اس میشن کی قیمت کم از بھی ایک لاکھ روپے ہوگی لیکن اس اشتہار میں

اس کی قمیت صرف چالیس ہزارروپے تھی اور یہی وجہ تھی کہ دوست نے اس کو

خریدنے کی بات کی تھی۔اس اشتہار میں لوکیشن لاہور درج تھی میں نے کہا بات کرتے

ہیں اگر حقیقی بات ہوئی تو جاکر لے آئیں گے ۔

میں نے دیے گئےفون نمبر پرکال کی آگے سے صاحب نے لمبا ساسلام کیا،دھیمہ لہحہ گفتار

ماشاٴء ا للہ، تعار ف کروایا بچوں کو دینی تعلیم دیتا ہوں میں نے پوچھا کہ یہ مشین کہاں

دیکھ سکتے ہیں بولے،اٹک میں ۔کانوں پر یقین نہ آیا پوچھا اشتہار میں تو لوکیشن لاہور

کی ہے؟ فرمانے لگے سر آپ کو معلوم ہے کہ یہ گیمنگ کی مارکیٹ توپڑے شہر ہیں

ہم چھوٹے شہروں والے ہیں یہاں لوگ کہاں افورڈ کرتے ہیں اس لیے لاہور کی لوکیشن

دینا پڑتی ہے گاہک جلدی مل جاتا ہے ۔ بات تھوڑی منطقی لگی کہ آج کل آن لان تجارت

کا زمانہ ہے تو کوئی بات نہیں ۔میں نے کہا مشین تصاویر میں تو اچھی لگی ہے آگے

کیسے بڑھیں بولے میں آپ کو ویڈیو واٹس ایپ کرتا ہوں آپ تسلی سے دیکھ لیں ۔ فون

بند کیا تو ویڈیو آگئی۔واٹس ایپ جو بھیجا اس میں فارورڈڈ میسج کا نشان تھا۔میرا ماتھا

ٹھنک گیا ۔میں نے کہا کہ ویڈیو ان صاحب نے خود نہیں بنائی کسی نے ان کو بھیجی

ہے کیونکہ واٹس ایپ کی کمپنی میٹا نے فیکٹ چیکنگ اور فیک نیوز کی روک تھام کے

لیے کچھ اقدامات کیے ہیں جن میں اوریجنل میسیج نہ ہو تو اس کے ساتھ لکھا ہوا آتا

ہے کہ یہ پیغام کسی اور کا ہے یہ صاحب صرف آگے بھیج رہے ہیں۔ ویڈیو دیکھ کر

دوبارہ کال کی پوچھا کہ یہ میشن آپ کی اپنی ہے ؟ گویا ہوئے نہیں جن کے گھر قرآن

پاک پڑھاتا ہوں ان کی ہے ان کے بچے چھوٹے ہیں خاتون باپردہ ہیں ان کے خاوند باہر

سے لے آئے تھے ان کے کسی کام کی نہیں ہے اس لیے میری ذمہ داری لگادی ہے کہ

اس کو بیچ دوں۔میں نے کہا کہ آپ اس گھر جاکر ایک ویڈیوکال کرکے مشین ہمیں

دکھادیں تاکہ تسلی ہوجآئے اور ہم آگے بڑھیں وہ صاحب فوری بولے ویڈیو بھیج تو دی

ہے آپ دیکھ لیں مجھ پر بھروسہ کریں میں آپ کو اپنا شناختی کارڈ بھیج دیتا ہوں ۔ایسا

کرتے ہیں کہ میں کوریئر والے کے پاس جاکر و یڈیو کال کرادیتا ہوں آپ کے سامنے

پیکٹ اس کے حوالے کروں گا آپ مجھے آدھی پیمنٹ بھیج دیں میں مشین بھیج دیتا ہوں ۔

میں نے کہا آپ مجھ پر اعتبار کرلیں میں آپ کی مشین ملتے ہی کیش آن ڈیلیوری کے

تحت پورے پیسے کوریئر والے کو دے کر مشین لے لوں گا ۔مجھے کہنے لگے چلیں آپ

پر اعتبار کرتا ہوں آپ آدھے پیسے نہ دیں دس ہزار بطور ٹوکن دے دیں میں آپ کا

آرڈر بک کرادیتا ہوں ۔میں نے کہا چلیں ایک کام اور کرتے ہیں مجھے اپنی لوکیشن

بھیجیں میں اٹک میں سے کسی کو آپ کے پاس بھیج دیتا ہوں وہ پورے پیسے دے کر

آپ سے مشین وصول کرلے گا ۔ یہ سن کر وہ صاحب تھوڑے ڈھیلے پڑنے لگے ان کو

معلوم ہورہا تھا کہ گاہک کوئی عام سادہ لوح نہیں ہے بلکہ ان کی تفتیش شروع ہوچکی

ہے۔جھنجھلا کر بولے آپ چھوڑیں اس کو کوریئر دیکھیں اور پیسے دیں کام ختم کریں کل

آپ کو مشین مل جائ ے گی ۔میں نتیجے تک پہنچ گیا تھا میں نے ان کو اٹک کے ایک

صحافی دوست کا نام بتایا کہ وہ آپ کے پاس آجاتے ہیں یہ سننا تھا کہ بولے آپ

چھوڑدیں۔ میں نے کہا کیوں فراڈ کرتے ہو۔ وہ ڈھٹاٴئی سے بغیر خوف زدہ ہوئے بولے

کہ آپ سمجھدار نکلے اور پکڑلیا لالچ میں نہیں آئے اور بچ گئے ورنہ ایک لاکھ کی

مشین کی اتنی کم قیمت دیکھ کر لوگ لالچ کی پٹی آنکھوں پر باندھ کر اپنی عقل کی

رسی ہمیں پکڑا دیتے ہیں۔آ پ کی جگہ اور ہوتا تو کم از کم اب تک دس ہزار تو

مجھے دے چکا ہوتا ۔میں نے کہا تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں؟ بولے کون پوچھے گا؟

صاحب فراڈ کا اپنا ایک سسٹم ہے ۔جب تک لالچ زندہ ہے ٹھگ بھوکے نہیں مریں گے۔

فون بند کیا اور سوچنے لگا کہ اس کا کیا کروں ۔سوچا پی ٹی اے کو بتاتا ہوں۔ پھر

سوچا وہ کیا کرے گا ؟ زیادہ سے زیادہ یہ سم بلاک کردے گااور اس کے بس میں کیا

ہے؟ایسے لوگوں ک ےپاس سیکڑوں سم کارڈ ہوتے ہیں ۔میں فراڈ پیغامات کا پہلے بھی پی

ٹی اے کو بتاچکا تھا تو پی ٹی اے نے وہ سم بلاک کرکے مجھے تسلی دے دی تھی

لیکن بے نظیر انکم سپورٹ سے لے کر جیتوپاکستان اور بول گیم شو کے انعامات کے

پیغامات تو آج تک آرہے ہیں ۔پھر سوچا ایف آئی اے کو بتاتاہوں ۔اس  طرف  جانے  ہی  والا  تھا  کہ 

کشتی ڈوبنے پر یوم سوگ کی خبروں پر نظر پڑی تو سوچا کہ اگر ایف آئی ا ے کام

کررہی ہوتی تو آج ہم سوگ نہ منارہے ہوتے ۔

فراڈ کا یہ سسٹم صرف ایک ویب سائٹ تک محدودنہیں ہے میں نے اپنی تحقیقاتی رپورٹنگ کو

وسیع کرنا شروع کردیا۔او ایل ایکس کو کھنگالا تو ایسے سیکڑوں اشتہارات سامنے آگئے

۔جس کو بھی فون کیا اٹک والی کہانی سے واسطہ پڑتا گیا۔میں نے فیس بک کا رخ کیا

تو فیس بک کی مارکیٹ پلیس بھی ایسے ہی فراڈیوں کا گڑھ نکلی۔میں نے اس فراڈ سے

وابسطہ ایک کردار سے راہ و رسم پیدا کی اس کو انٹرویو کیا۔اس نے کہا کہ اب تو

سوشل میڈیا کا دور ہے فراڈ بہت آسان ہوگیا ہے ہم نے تو اس وقت بھی فراڈ کیا جب

لوگوں کےموبائل نمبر حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوتا تھا۔ میں نے پوچھا اس وقت کیا کرتے

تھے؟ اس نے بتایا کہ جو بڑی کمپنیاں ہیں وہ اپنی مارکیٹنگ کے لیے موبائل کمپنیوں

سے نمبر خریدتی ہیں لیکن چھوٹے فراڈیوں نے اپنا الگ سسٹم بنایا ہوا تھا۔ اس نے بتایا

کہ ہم صابن اور سرف وغیرہ لے کر دیہاتوں میں چلے جاتے تھے اس سامان کی

خریداری پر قرعہ اندازی کے ذریعے انعامات کا لالچ دے کرموبائل نمبر حاصل کرلیتے

تھے پھر انہی نمبروں کو فراڈ پیغامات بھیجنے کے لیے استعمال کرتے۔جو ایک بار جال

میں پھنس جاتا اس کو مزید لالچ دے کر پیسے بٹورے جاتے ہیں۔لٹنے والے کے پاس

واحد ثبوت ہمارا ایک فون نمبرہوتا ہے جس کو پی ٹی اے بلاک کردیتا ہے اور ہم

دوسری سم سے کام شروع کردیتے ہیں ۔

میں  اس فراڈ کی تحقیقات میں  مزیداترا تو پتہ چلا کہ کچھ لوکل کوریئر کمپنیاں

اس دھندے میں برابر کی شریک ہیں یہ فراڈیے گاہکوں کو پھانس کر انہی کوریئر والوں

کے پاس جاتے ہیں اور واٹس ایپ ویڈیو کالز کے ذریعے کوریئر والوں کی گواہی دلواکر

اپنا فراڈ اوریجنل بناتے ہیں۔ میں نے جب فراڈیوں کو فون کرکے تفتیش کی تو کچھ ہی

وقت کے بعد میرا موبائل نمبر اسی فراڈ کے لیے بنائے گئے مختلف واٹس ایپ گروپس

میں ایڈ ہونے لگا یہ ایک الگ ہی جہان ہے۔واٹس ایپ پر گروپس میں ایڈمن اونلی

پوسٹنگ ہے ۔یہاں ٹی وی ایل ای ڈیز سے لے کر الیکٹرانکس کی ہر چیز آدھی قیمت

کے لالچ پر دھڑا دھڑ پوسٹ کی جاتی ہے۔ڈیجیٹل دور میں فیس بک،واٹس ایپ اور

انسٹاگرام جیسی تمام سائٹس فراڈکے اڈے ہیں ۔

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ فراڈ اور فراڈیے ہمارے اردگرد موجود بے رحمی سے عوام کو

لوٹ رہے ہیں لیکن تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ لٹنے والوں کی دادرسی کا کوئی فورم

موثر نہیں ہے۔یہ فراڈ ایسی چھوٹی چھوٹی نوعیت سے شروع ہوتے ہیں کہ پولیس ایف

آئی آرز تک درج نہیں کرتی ۔ایف آٴئی ا ے تک رساٴئی اور شنو ائی کا نظام اس قدر پیچیدہ

اور مہنگاکہ لٹنے والے اس طرف رجوع ہی نہیں کرتے۔پی ٹی اے کے پاس اختیارات یا

دائرہ اختیار اس قدر محدود کہ زیادہ سے زیادہ سم بلاک کرسکتی ہے۔میں نے ایسے فراڈ

کی تفتیش کے ذمہ دارادارے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ایک افسر سے بات کی

تو وہاں سے جو میں اخذ کرپایا کہ ادارے کے وساٴئل محدود ہیں۔یہ فراڈ بہت ہی چھوٹے

لیول کے ہیں پھر ثبوتوں میں زیادہ سے زیادہ فون کالز یا ایزی پیسہ اور جیز کیش کے

ذریعے پیسوں کی ادائیگی ہوتی ہے جس میں کوئی ثبوت تک کا ذکر نہیں ہوتا ۔اور فون

کے ذریعے کسی کے پیچھے جائیں بھی تو فراڈیے خود سمیں بدلتے رہتے ہیں ۔

اداروں کا محدود دائرہ کار یا عوام کی دادرسی کی عدم دلچسپی اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ

کہ عام لوگ لالچ کی بھینٹ روزانہ کی بنیاد پر چڑھ رہے ہیں اور فراڈیے  بھی اسی طرح

روزانہ چھوٹی چھوٹی ڈکیتیاں کرکے اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں ۔