Wednesday, October 9, 2024

Religious Education System

 

دینی مدارس:طلبا،مستقبل،مسائل اورچیلنجز

جمعیت طلبہ عربیہ کے منتظم اعلی محمد افضل گول میز کانفرنس کی میزبانی کرتے ہوئے


ملک  میں تعلیمی شعبے کا حال ویسے بھی اچھا نہیں ہے لیکن کسی کو اچھالگے یا برا کوئی اس کومتوازی نظام تعلیم سمجھے یا غیرضروری کہتا رہےیہ حقیقت تو ماننی ہی پڑے گی  کہ اس ملک میں مروجہ تعلیمی نظام جو اسکولوں اور کالجز پرمشتمل ہے ،کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمی اداروں کا بھی وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔اس وقت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں کوئی پینتیس ہزار مدارس موجود ہیں جن میں سے نصف کے قریب وفاقی وزارت تعلیم کے ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجئس ایجوکیشن کے ساتھ باقاعدہ رجسٹرڈہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں اس وقت چالیس لاکھ کے قریب طلبا زیر تعلیم ہیں۔

یہ چالیس لاکھ بھی ویسے ہی پاکستانی بچے اور طالب علم ہیں جیسے ہمارے ارد گرد سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں میں زیرتعلیم ہیں۔بچے دینی مدارس یا مذہبی تعلیم کیوں حاصل کرتے ہیں اس کی وجہ صرف اور صرف غربت یا والدین کا سوشواکنامک اسٹیٹس ہے یا والدین کی اپنے بچوں کے لیے دینی تعلیم ترجیح ہے یا یہ سب کچھ وہ ثواب اورآخرت کی تیاری کے پیش نظر اختیار کرتے ہیں یہ باتیں قابل بحث ہوسکتی ہیں اور کسی کو اس سوچ یا نظریے سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے لیکن ان تمام حالات کے درمیان اس حقیقت کو نظراندازکرنا ممکن ہی نہیں ہے کہ ایسے طالب علم چالیس لاکھ کی تعداد میں ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور پھر ان کو بھی مفید شہری بنانااور ان کا مستقبل بہتر بنانا بھی اسی طرح ریاست کے فرائض میں شامل ہے جس طرح روایتی تعلیمی اداروں کے گریجوایٹس کا ہے۔

اس کو ریاست کی عدم توجہی کہیں یا مجرمانہ سوچ اور غفلت کہ اس نے دینی تعلیم کے اداروں کے لیے اس سسٹم میں کوئی خاص جگہ نہیں رکھی تو دوسری طرف دینی مدارس چلانے والوں نے بھی حکومتوں اور ریاست کو دینی تعلیم کا دشمن گرداننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور نتیجہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے تاریک مستقبل کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔دینی تعلیم حاصل کرنے والے چاہتے کیا ہیں ؟ یہ سوال بڑا اہم ہے لیکن اس کا جواب سادہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح باقی تعلیمی اداروں سے پڑھنے والوں کو مقابلے کی اجازت ہے ان کا بھی یہی حق تسلیم کرکے ان کو بھی نوکریوں کےلیے امیدوار مان لیا جائے۔


جمعیت طلبہ عربیہ دینی مدارس کے طلبا کی نمائندہ تنظیم ہے اوراس تنظیم نے دینی مدارس کے طلبا کے درمیان اتحاد قائم کرکے ان کو درپیش مسائل اجاگر کرنے کی مہم کا آغازکررکھا ہے ۔انہی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے جمعیت طلبہ عربیہ نے منصورہ لاہورمیں ایک گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا ۔  منتظم اعلی محمد افضل کی طرف سے بلائی گئی اس گول میزکانفرنس میں وفاق المدارس اور تنظیم المدارس کے نمائندوں نے شرکت کی، دینی مدارس اور طلبا کو درپیش مسائل پر خوب گفتگو کی گئی ۔

اس کانفرنس کے شرکا کے خیالات جان کرمجھے یوں لگا جیسے دینی مدارس کی ترقی اور معاشرے میں ان کا جائز حصہ دلانے کی کوششیں دم توڑ چکی ہیں۔ دینی مدارس میں طلبا جو تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ درس نظامی کہلاتی ہے ۔سات یا آٹھ برسوں پر محیط یہ عربی اور اسلامیات کی سمجھ بوجھ اور فقہی ،شرعی مسائل پر دسترس حاصل کرنے کی ڈگری ہوتی ہے ۔جمود کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ مدارس کی سند شہادۃ العالمیہ کو انیس سو بیاسی میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ایم اے عربی اور اسلامیات کے مساوی قراردیا تھا ۔اس کے بعد ملک میں کئی نظام بدلے۔ تعلیمی نظام میں جوہری تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔میٹرک کے بعد ہی اسپیشلائزیشن کا آغازہونے لگا۔ ایم اے بی ایس میں بدل گیا لیکن دینی مدارس کی باقی اسناد کو تسلیم کرانے کے لیے کسی نے کام کیا اور نہ سرکار کو خیال آیا۔ آج دینی مدارس کے طلبا چاہتے ہیں کہ ان کی ڈگری کو بھی بی ایس کے ہم پلہ قراردیاجائے تاکہ وہ مروجہ نوکریوں میں اپلائی کرسکیں ۔

ایک اہم مسئلہ ایچ ای سی اور تعلیمی بورڈز سے دینی مدارس کی اسناد کو ایف اے بی اے یا ایم کے ہم پلہ قراردلوانے کا عمل بہت ہی طویل اور امتیازی سلوک کا شکار ہے تو اگر حکومت قراردے چکی ہے کہ درس نظامی کی ڈگری ایم اے عربی اور اسلامیات کے ہم پلہ ہوگی تو پھر اس پر سرکاری مہر لگانے میں اتنی مشکلات کیوں ہیں؟اس لیے ایچ ای سی کاایکولینس کا نظام آسان بنانا لازمی ہے۔

جب یہ مدارس کی ڈگری سرکاری طورپرتسلیم شدہ ہے تو پھر سرکاری ملازمتوں ،کالج یونیورسٹی کی سطح پر لیکچرشپ  اور مسلح افواج میں نوکریوں کےلیے بھی اس کو تسلیم شدہ بنایا جائے تاکہ ایسی ڈگریاں رکھنے والوں میں جو احساس محرومی پیدا ہوتا ہے اس کا خاتمہ ہو اور دینی طبقہ جو اپنے علاوہ سرکارکو طاغوت اور اپنامخالف سمجھتا ہے اس سوچ کا خاتمہ بھی ہوجائے۔

اب چونکہ ہمارے ہاں نیا تعلیمی نظام رائج ہوچکاہے جس کے تحت ایف اے کے بعد چار سالہ ڈگری بی ایس کہلاتی ہے اور یہی ڈگری ماسٹر کی ڈگری بن چکی ہے تو مدارس کی ڈگری کو بھی بی ایس کے مساوی مان لیا جائے کہ وہ بھی تو اسلامی تعلیم ہی حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے اپنے بورڈز سے امتحان دیتے ہیں اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ درس نظامی پڑھنے والے طلبا ایف اے بی اے اور ایم اے سے زیادہ مشکل نصاب پڑھتے ہیں۔ زیادہ وسیع نصاب پڑھتے ہیں۔زیادہ گہرائی سے چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں زبان وبیان پر عبور ان کا کہیں زیادہ ہے تو پھر ان کو معاشرے میں مروجہ نظام سے دوررکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

یہ مسائل جینون ہیں لیکن ایک بات اور بھی اہم ہے کہ دینی ادارے چلانے والے بھی قصوروارہیں کہ انہوں نے خود کو جدید نہ بنانے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ اپنے آپ  کو زمانے کے ساتھ بلکہ آگے چلانے کے لیے منہاج یونیوسٹی کی مثال سب دینی مدارس کے لیے مشعل راہ ہے۔سب دینی مدارس کے منتظمین کو مطالعہ کرنا چاہئے کہ کس طرح منہاج القرآن ایک شریعہ کالج یا دینی مدرسے سے ایچ ای سی سے منظورشدہ عظیم یونیورسٹی میں بدل گیا اگر مہناج القرآن ترقی کرسکتا ہے تو باقی دینی مدارس بھی کرسکتےہیں۔

جمعیت طلبہ عربیہ کی دینی مدارس کے مسائل کو اجاگرکرنے مہم قابل ستائش ہے یہ اہم موقع ہے کہ دینی مدارس کے منتظمین اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کرخود کو منوانے کے لیے متحد ہوجائیں۔