Sunday, October 27, 2024

Hamid MIR and his venom


حامد میرسے یہی توقع تھی۔۔۔ 

قاضی کاجرم یہ ہے کہ پوری قوم کوپاپولرفیصلوں کی عادت تھی لیکن قاضی صاحب نے کسی پارٹی کی خواہش،یا اپنی ٹرولنگ کی فکر کیے بغیر قانون کے مطابق فیصلہ دیدیا۔ قاضی کا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے سپریم کورٹ کی سماعت کو لائیو کرکے گروگھنٹال وکلا اور قانونی ماہرین کو ایکسپوز کردیا ہے۔ قاضی کا جرم یہ بھی ہے اس نے اپنی آمریت قائم کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کوسپریم تسلیم کرلیا ہے۔قاضی کا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے کسی کے”کرش“میں آئین کو دوبارہ لکھنے سے انکارکیا ہے۔قاضی کا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے الیکشن کی تاریخ کو پتھر پر لکیر کہہ کر اس پرپہرہ بھی دیا ہے۔حیرت پی ٹی آئی کے دوستوں پر بالکل نہیں بلکہ ان پر ہے جو صحافی کہلاتے ہیں لیکن اس فیصلے میں آئین اور قانون کی بجائے کسی پاپولرفیصلے کی توقع پوری نہ ہونے پراچھل اچھل کر چھتیں توڑرہے ہیں اوربددیانتی سے پی ٹی آئی وکلا کی بجائے قانون کے مطابق فیصلہ دینے والے چیف جسٹس  پرتنقید کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ کوجسٹس منیر سے ملانا چاہتے ہیں



یہ میرے سولہ جنوری 2024کے کالم کی چند سطریں ہیں۔یہ کالم اس وقت لکھا تھا جب مقبولیت پرست گروہ آئین اورقانون کے عین مطابق پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن نہ کروانے کے فیصلے پرپی ٹی آئی سے الیکشن نہ کروانے کاسوال کرنے کی بجائے چور کے کوتوال کو ڈانٹنے جیسا رویہ اپنائے ہوئے تھا۔ایسے لوگوں کا دکھ نہ اس ملک کا آئین ہے نہ قانون۔ایسے لوگوں کا دکھ اس ملک میں چند لوگوں سے اپنی نفرت،ایک پارٹی سے محبت اور اپنی ذات کا منافع ہے۔ایسے لوگ صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے بھیس میں ”فیکیے“ ہیں جو اس معاشرے کی ”تانی“ کو جھوٹ پھیلاکر کاٹ رہے ہیں۔ان کا چونکہ کسی نے راستہ نہیں کاٹا اس لیے ان کے دانت اتنے تیز ہوگئے ہیں کہ اب اس ملک میں کسی کی پگڑی ان سے محفوظ نہیں۔ان لوگوں کی معیشت اس نفرت کے کھیت سے وابستہ ہے۔یہ نفرت کی کھیتی ان کے لیے ڈالرا گاتی ہے اور مقبولیت پرست گروہ اس کھیتی سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے۔

ایسے”دولہے شاہ“ دانشوروں میں ایک نام حامد میر صاحب کا بھی ہے۔ حامد میرفوج سے اپنی روایتی نفرت میں ہر اس شخص کی پوجا کرنے لگتے ہیں جو اپنی ذات یا سیاسی اسکور برابر کرنے کے لیے پاک فوج کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ میرصاحب اپنی سوچ،رائے اور تجزیے کو ”مقبولیت پرست“ گروہ کے ہاں کافی عرصے سے گروی رکھ چکے ہیں۔فوج سے نفرت کے بہاؤمیں بہتے چلے جارہے ہیں اور اپنا قلم”مقبولیت پرست“ گروہ کی خوراک کے لیے وقف کرچکے ہیں۔انہوں نے جانے والے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اپنے اندر مقبولیت پرستوں والا زہر پال رکھا تھا لیکن وہ یہ زہر تھوکنے کے لیے قاضی صاحب کے  جانے کا انتظار کررہے تھے۔ مجھے حامد میر صاحب سے یہی توقع تھی جو انہوں نے اپنے حالیہ کالم میں قاضی صاحب کو جسٹس منیرقراردیکر چاندپر تھوکاہے۔

جناب حامد میرصاحب کو یہ روانی،شہرت، صحافیانہ مقبولیت اور ریٹنگ اس لیے میسر ہے کہ ان کے پاس جنگ کا کالم اور جیونیوز کی سکرین ہے۔ان سے یہ دونوں چیزیں واپس لے لی جائیں تو حامد میر صاحب اپنی آوازاورالفاظ لوگوں کو سنانے کے لیے جدوجہد کرتے دکھائی دیں گے۔کچھ عرصہ قبل ان کو زعم ہوگیا تھا کہ وہ بہت مقبول اینکر ہیں اور جس ٹی وی سے اپنا نام جوڑیں گے وہ ٹی وی شہرت کے آسمان پر پہنچ جائے گا۔ان کے بھائی عامیر میر صاحب لاہورسے زبیر چٹھہ صاحب کاچینل  شروع کرنے لگے تو انہوں نے منصوبہ بنایا کہ حامد میر کو جیوسے توڑکر  اس چینل سے جوڑ دیا جائے تویہ جیوکو مات دے دے گا۔اس گیم میں حامد میر صاحب کو ”گج وج“ کے جیوسے جی این این لایا گیا لیکن جیوسے اترنے اور جنگ سے محروم ہونے کی دیر تھی کہ حامد میر صاحب کو خود کی شکل بھولنے لگ گئی۔یہی حامد میر تھے جو جیو پر شو کرتے تو پہلے نمبر پر آتا تھا اور جی این این کے کنویں میں گرنے سے جنگل اور مور جیسے حالات ہو نے لگے تو حامد میر جی این این کو ادھورا چھوڑ کرواپس جیو بھاگ آئے۔

حامد میر صاحب اصول پرست اور بہادر اتنے ہیں کہ جب عمران خا ن صاحب کے دورمیں یوٹیوبر اسد طورپر تشدد ہوا تو حامد میر کو فوج کے خلاف زہر تھوکنے کا ایک اور موقع مل گیا۔انہوں نے اسد طورکے حق میں ایک  مظاہرے کے دوران جنرل فیض حمید پر بغیر ثبوت کچھ الزامات لگادیے۔ان الزامات نے ان کو آف ایئر کردیا۔چند ماہ جیو اور جنگ سے دور ہوئے تو اس مقبول صحافی کو ”نانی چیتے“آگئی  اور پھر حامد میر صاحب نے جس نیشنل پریس کلب کے سامنے کھڑے ہوکر فیض حمید پرالزامات لگائے تھے اسی پریس کلب میں پی ایف یو جے اور کچھ دیگر”گارنٹرز“کی گارنٹی پر فیض حمید سے معافی تلافی کے بعد دوبارہ سکرین پر آنے میں کامیاب ہوئے تھے۔یہ فوج کی نفرت کا ہی فیض تھا کہ حامد میر نے اپنے سخت ترین مخالفین عمران ریاض اور صدیق جان جیسے لوگوں،جو حامد میر کی کردارکشی کیا کرتے تھے، ان کے ساتھ ہاتھ ملالیے اور پھر جم کر فوج کی مخالفت میں سرگرم ہوگئے۔

قاضی صاحب پر تھوکنے والوں میں  ان جیسے کچھ صحافی اور بھی ہیں  ایک نام عامر متین کا بھی ہے لیکن وہ اس قابل نہیں کہ تذکرہ کروں لیکن میں یہاں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا کا ذکر کروں گا۔حامد رضا مذہبی سیاستدان ہیں۔وہ اسلامی شعائر،بدگمانی،حسن ظن اور کینہ جیسے بدطینت جذبات سے باقی عوام سے زیادہ واقف ہوں گے اس لیے ان کا احتساب بھی اللہ کے حضور کڑاہوگا۔انہوں نے بھی قاضی صاحب کے خلاف سوشل میڈیا پوسٹ میں مغلظات بکی ہیں۔وہ اسلام کا پرچار کرتے ہیں لیکن اپنے اندرکے شیطان کو الزامات لگانے سے روک نہیں پائے اورانہوں نے بھی حامد میر صاحب کی طرح قاضی صاحب کے خلاف زبان درازی کے لیے ان کے عہدے سے اترنے کا انتظار کیا۔

 اس صحافتی  بددیانتی پر ایسے عناصر سے اتنا سوال ہے کہ کیا قاضی صاحب اس لیے جسٹس منیر ہیں کہ انہوں نے کسی آمر کوجوازدیا ہے؟یا اس لیے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذات کے لیے کوئی ”نظریہ ضرورت“ایجاد کیا ہے؟یا انہوں نے کسی کی محبت میں آئین دوبارہ تحریر کردیا  ہے؟ یا ایسے لوگوں کو محض اس لیے تکلیف ہے کہ انہوں نے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کی بالادستی کا ڈنکابجایاہے؟

 

 

 

 

 


Wednesday, October 9, 2024

Religious Education System

 

دینی مدارس:طلبا،مستقبل،مسائل اورچیلنجز

جمعیت طلبہ عربیہ کے منتظم اعلی محمد افضل گول میز کانفرنس کی میزبانی کرتے ہوئے


ملک  میں تعلیمی شعبے کا حال ویسے بھی اچھا نہیں ہے لیکن کسی کو اچھالگے یا برا کوئی اس کومتوازی نظام تعلیم سمجھے یا غیرضروری کہتا رہےیہ حقیقت تو ماننی ہی پڑے گی  کہ اس ملک میں مروجہ تعلیمی نظام جو اسکولوں اور کالجز پرمشتمل ہے ،کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمی اداروں کا بھی وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔اس وقت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں کوئی پینتیس ہزار مدارس موجود ہیں جن میں سے نصف کے قریب وفاقی وزارت تعلیم کے ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجئس ایجوکیشن کے ساتھ باقاعدہ رجسٹرڈہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں اس وقت چالیس لاکھ کے قریب طلبا زیر تعلیم ہیں۔

یہ چالیس لاکھ بھی ویسے ہی پاکستانی بچے اور طالب علم ہیں جیسے ہمارے ارد گرد سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں میں زیرتعلیم ہیں۔بچے دینی مدارس یا مذہبی تعلیم کیوں حاصل کرتے ہیں اس کی وجہ صرف اور صرف غربت یا والدین کا سوشواکنامک اسٹیٹس ہے یا والدین کی اپنے بچوں کے لیے دینی تعلیم ترجیح ہے یا یہ سب کچھ وہ ثواب اورآخرت کی تیاری کے پیش نظر اختیار کرتے ہیں یہ باتیں قابل بحث ہوسکتی ہیں اور کسی کو اس سوچ یا نظریے سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے لیکن ان تمام حالات کے درمیان اس حقیقت کو نظراندازکرنا ممکن ہی نہیں ہے کہ ایسے طالب علم چالیس لاکھ کی تعداد میں ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور پھر ان کو بھی مفید شہری بنانااور ان کا مستقبل بہتر بنانا بھی اسی طرح ریاست کے فرائض میں شامل ہے جس طرح روایتی تعلیمی اداروں کے گریجوایٹس کا ہے۔

اس کو ریاست کی عدم توجہی کہیں یا مجرمانہ سوچ اور غفلت کہ اس نے دینی تعلیم کے اداروں کے لیے اس سسٹم میں کوئی خاص جگہ نہیں رکھی تو دوسری طرف دینی مدارس چلانے والوں نے بھی حکومتوں اور ریاست کو دینی تعلیم کا دشمن گرداننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور نتیجہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے تاریک مستقبل کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔دینی تعلیم حاصل کرنے والے چاہتے کیا ہیں ؟ یہ سوال بڑا اہم ہے لیکن اس کا جواب سادہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح باقی تعلیمی اداروں سے پڑھنے والوں کو مقابلے کی اجازت ہے ان کا بھی یہی حق تسلیم کرکے ان کو بھی نوکریوں کےلیے امیدوار مان لیا جائے۔


جمعیت طلبہ عربیہ دینی مدارس کے طلبا کی نمائندہ تنظیم ہے اوراس تنظیم نے دینی مدارس کے طلبا کے درمیان اتحاد قائم کرکے ان کو درپیش مسائل اجاگر کرنے کی مہم کا آغازکررکھا ہے ۔انہی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے جمعیت طلبہ عربیہ نے منصورہ لاہورمیں ایک گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا ۔  منتظم اعلی محمد افضل کی طرف سے بلائی گئی اس گول میزکانفرنس میں وفاق المدارس اور تنظیم المدارس کے نمائندوں نے شرکت کی، دینی مدارس اور طلبا کو درپیش مسائل پر خوب گفتگو کی گئی ۔

اس کانفرنس کے شرکا کے خیالات جان کرمجھے یوں لگا جیسے دینی مدارس کی ترقی اور معاشرے میں ان کا جائز حصہ دلانے کی کوششیں دم توڑ چکی ہیں۔ دینی مدارس میں طلبا جو تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ درس نظامی کہلاتی ہے ۔سات یا آٹھ برسوں پر محیط یہ عربی اور اسلامیات کی سمجھ بوجھ اور فقہی ،شرعی مسائل پر دسترس حاصل کرنے کی ڈگری ہوتی ہے ۔جمود کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ مدارس کی سند شہادۃ العالمیہ کو انیس سو بیاسی میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ایم اے عربی اور اسلامیات کے مساوی قراردیا تھا ۔اس کے بعد ملک میں کئی نظام بدلے۔ تعلیمی نظام میں جوہری تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔میٹرک کے بعد ہی اسپیشلائزیشن کا آغازہونے لگا۔ ایم اے بی ایس میں بدل گیا لیکن دینی مدارس کی باقی اسناد کو تسلیم کرانے کے لیے کسی نے کام کیا اور نہ سرکار کو خیال آیا۔ آج دینی مدارس کے طلبا چاہتے ہیں کہ ان کی ڈگری کو بھی بی ایس کے ہم پلہ قراردیاجائے تاکہ وہ مروجہ نوکریوں میں اپلائی کرسکیں ۔

ایک اہم مسئلہ ایچ ای سی اور تعلیمی بورڈز سے دینی مدارس کی اسناد کو ایف اے بی اے یا ایم کے ہم پلہ قراردلوانے کا عمل بہت ہی طویل اور امتیازی سلوک کا شکار ہے تو اگر حکومت قراردے چکی ہے کہ درس نظامی کی ڈگری ایم اے عربی اور اسلامیات کے ہم پلہ ہوگی تو پھر اس پر سرکاری مہر لگانے میں اتنی مشکلات کیوں ہیں؟اس لیے ایچ ای سی کاایکولینس کا نظام آسان بنانا لازمی ہے۔

جب یہ مدارس کی ڈگری سرکاری طورپرتسلیم شدہ ہے تو پھر سرکاری ملازمتوں ،کالج یونیورسٹی کی سطح پر لیکچرشپ  اور مسلح افواج میں نوکریوں کےلیے بھی اس کو تسلیم شدہ بنایا جائے تاکہ ایسی ڈگریاں رکھنے والوں میں جو احساس محرومی پیدا ہوتا ہے اس کا خاتمہ ہو اور دینی طبقہ جو اپنے علاوہ سرکارکو طاغوت اور اپنامخالف سمجھتا ہے اس سوچ کا خاتمہ بھی ہوجائے۔

اب چونکہ ہمارے ہاں نیا تعلیمی نظام رائج ہوچکاہے جس کے تحت ایف اے کے بعد چار سالہ ڈگری بی ایس کہلاتی ہے اور یہی ڈگری ماسٹر کی ڈگری بن چکی ہے تو مدارس کی ڈگری کو بھی بی ایس کے مساوی مان لیا جائے کہ وہ بھی تو اسلامی تعلیم ہی حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے اپنے بورڈز سے امتحان دیتے ہیں اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ درس نظامی پڑھنے والے طلبا ایف اے بی اے اور ایم اے سے زیادہ مشکل نصاب پڑھتے ہیں۔ زیادہ وسیع نصاب پڑھتے ہیں۔زیادہ گہرائی سے چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں زبان وبیان پر عبور ان کا کہیں زیادہ ہے تو پھر ان کو معاشرے میں مروجہ نظام سے دوررکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

یہ مسائل جینون ہیں لیکن ایک بات اور بھی اہم ہے کہ دینی ادارے چلانے والے بھی قصوروارہیں کہ انہوں نے خود کو جدید نہ بنانے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ اپنے آپ  کو زمانے کے ساتھ بلکہ آگے چلانے کے لیے منہاج یونیوسٹی کی مثال سب دینی مدارس کے لیے مشعل راہ ہے۔سب دینی مدارس کے منتظمین کو مطالعہ کرنا چاہئے کہ کس طرح منہاج القرآن ایک شریعہ کالج یا دینی مدرسے سے ایچ ای سی سے منظورشدہ عظیم یونیورسٹی میں بدل گیا اگر مہناج القرآن ترقی کرسکتا ہے تو باقی دینی مدارس بھی کرسکتےہیں۔

جمعیت طلبہ عربیہ کی دینی مدارس کے مسائل کو اجاگرکرنے مہم قابل ستائش ہے یہ اہم موقع ہے کہ دینی مدارس کے منتظمین اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کرخود کو منوانے کے لیے متحد ہوجائیں۔